غزہ(مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن )اسرائیل پر طوفان الاقصی نام سے جاری حملوں کے روح رواں محمد ضیف نے کہا ہے قابض اسرائیل نے فلسطین کے عام شہریوں کا سینکڑوں بار قتل عام کیا ہے ۔آج اسی وجہ سے طوفان الاقصی ہمارے قومی غصے کا اظہار ہے اور ہمارے جنگجو اسی سبب اب پھٹ پڑے ہیں۔
اس لئے تنگ امد بجنگ آمد کی صورت شروع کیے گئے آپریشن کو طوفان الاقصی کا نام دیا گیا ہے۔ جو پوری طرح فلسطینی مزاحمت کاروں کی حکمت عملی کا مظہر ہے۔
اسرائیل پر حملے کا طوفان الاقصی نام کیوں ؟
یہ جانتے بوجھتے کہ مسئلہ فلسطین کس قدر پرانا ہے۔ بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں۔
اس سوال کا جواب پانے کے لئے شیخ جراح سے آغاز کرتے ہیں ۔ یہ علاقہ بیت المقدس کے پڑوس میں ہے۔ جہاں ایک اسرائیلی آباد کار کانام یعقوب ہے۔ یعقوب امریکہ سے آیا ہے۔ اس نے فلسطینی کرد خاندان سے ایک گھر لیا۔
اس کا کہنا تھا ‘ اگر میں تمہار اگھر نہیں چراوں گا تو کوئی دوسرا چرا لے گا یعنی قبضے میں لے لے گا ۔ اس لئے مجھے ہی بیچ دو۔ ‘
دنیا بھر سے آنے والے یہودی آباد کاروں نے فلسطین پہنچ کر مقامی فلسطینیوں کے گھروں کو اسی طرح ہتھیا یا ۔ جو گھر فلسطینیوں نے بنائے تھے یا جو زمین فلسطینیوں کی اپنی رقم سے خریدی گئی تھیوہ زمین ان سے اس طرح دھمکا یا بلیک میل کر کے ان سے لے لی۔
اسرائیل کے کئی وزیر بشمول سموتریچ نے فلسطینی شہریوں کے گھروں کو قبضے میں لینے کے طریقہ واردات کی کھلے عام حمایت کی ہے۔ اس پالیسی کو فلسطینیوں کی بے دخلی کانام دیا گیا ہے۔
اسرائیلی آباد کاروں نے مقامی فلسطینیوں کے خلاف ایسے جرائم اور حملوں کا ارتکاب کیا ہے اور اب بھی جاری ہیں۔ اس ظلم اور جبر میں آئے روز کی گرفتاریاں ۔ چھاپے، پھانسیاں، جائیدادوں کی ضبطی اور گھروں کی مسماری سب شامل ہے۔
یہودی آباد کاروں نے بھی فلسطینی عوام اور ان کی جائیدادوں فوجی سرپرستی میں حملے جاری رکھے ہوئے تھۓ۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں صرف سال 2023 کے دوران اب تک 600 حملے ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق 2022 میں 399 فلسطینیوں کو بے گھروں پر قبضے کیے گئے ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق مغربی کنارے میں چار لاکھ نوے ہزار یہودی آباد کار ناجائز طور پر بسائے گئے ہیں۔
حتی کہ مسجد اقصی پر یہودی لوگ بشمول یہودی خواتین مسلسل حملے کرتے ہیں۔ اس طرح کے خوف اور دھمکیوں کی فضا مسلسل کاری رہتی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ حملے مسیحیوں پر بھی جاری رہتے ہیں۔ اشی طرح فلسطینی صحافی ابو عاقلہ کو سینے میں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ بعد ازاں ان کی نماز جنازہ کو بھی اسرائیلی فوج نے نشانہ بنائی گئی۔
ان حالات میں دنیا فلسطینیوں سے کیا توقع کرتی ہے۔ یہ کہ فلسطینی اسرائیلی محاصرے اور مسلط کردہ موت کے سامنے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہتے۔ تاکہ یہودی اباد کارانہیں زندہ جلا دیں۔ ہمارے خاندانوں کو جلا ڈالیں۔ یا پھر اسرائیلی مسجد اقصی کو ہی شہید کر دیتے۔
غزہ کے بارے میں ؟
جب 2006 میں حماس نے الیکشن جیت لیا ۔ تو اسرائیل نے ناجائز طور پر غزہ کا محاصرہ کر لیا۔ سترہ سال سےجاری اسرائیلی محاصرے کی وجہ سے 23 لاکھ لوگ بنیادی اشیائے ضرورت سے محروم ہیں۔
اس محاصرے کو ایک سال بعد مزید سخت کر دیا گیا اور غزہ کو مغربی کنارے، مقبوضہ یروشلم سے کاٹ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں بے روزگاری اور غربت کی شرح 65 فیصد ہو چکی ہے۔
غزہ کے اس لمبے محاصرے کی وجہ سے غزہ میں صحت کے بھی غیر معمولی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ مریض علاج کے لئے بھی غزہ سے باہر نہیں جا سکتے ۔ نہ ان کے لئے ادویات کی فراہمی ممکن ہوتی ہے۔
اسرائیل کی طرف سے زیر محاصرہ غزہ پر بار بار جنگ مسلط کی گئی۔ بمباری کی گئی اور ہزاروں فلسطینیوں کو شہید کیا گیا۔ جبکہ دسیوں ہزار مکانات تباہ کیے۔
فلسطینی جدوجہد بقا کے لئے ہے۔ جو لوگ آج یہ سوال کر رہے ہیں کہ جاری جنگ کس نے شروع کی ہے۔ وہ اسرائیل کی تاریخ سے آگاہ نہیں ہیں۔ بلکہ وہ تاریخ کو کھرچ کر غائب کر دینا چاہتے ہیں۔
امریکیوں اور برطانوی میڈیا کے سوالات پر برطانوی ممبر پارلیمنٹ جارج گیلوے نے بیان دیا ہے ‘ مسئلہ آج شروع نہیں ہوا۔ یہ اس وقت سے چل رہا ہے جب اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا۔ یہ مسئلہ تب سے چل رہا ہے جب فلسطینیوں کو ان کی سرزمین اور گھروں سے بے دخل کرر دیا گیا تھا۔ جب فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا تھا۔ اس لئے مسئلے کو ہفتے کے دن سے جوڑ کر اسرائیل کا غلط دفاع نہ کیا جائے ۔