تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
عراق کا مسئلہ فلسطین کے ساتھ ایک تاریخی رشتہ قائم رہا ہے۔ عراق کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے سنہ1948ء میں فلسطین پر صیہونی ناجائز قبضہ کے خلاف باقاعدہ جنگ میں حصہ لیا۔عراق نے سنہ1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی فلسطین کا دفاع کیا اور جنگ میں شریک رہا۔عراقی عوام کا فلسطین کاز کے ساتھ ایک دیرینہ اور تاریخی رشتہ ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔عراقی عوام کے کئی ایک نامور جانبازوں نے فلسطین کاز کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔یہ رشتہ عرب حمیت کے ساتھ ساتھ اسلامی رواداری اور بھائی چارے کا بھی ہے کہ جس کو نبھانے کے لئے عراق اور اس کے عوام نے فلسطینیوں کو کبھی مایوس نہیں کیا ہے۔
عراق کے مقدس شہر کربلائے معلی میں گذشتہ دنوں ندائے اقصیٰ کے عنوان سے عالمی کانفرنس کا انعقاد کیاگیا تھا جس کی میزبانی نواسہ رسول (ص) حضرت امام حسین (ع) کے حرم مقدس کی انتظامیہ نے کی اور ان کے ساتھ تعاون میں عراق کی انجمن علماء رباط سمیے جامعہ زہرا اور جامعہ وارث اور دنیا بھر میں فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک العودہ الی فلسطین شامل تھے۔اس کانفرنس میں 65ممالک سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام، مشائخ عظام، سیاستدان، صحافی، وکلاء، اساتذہ اور شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام خواتین و حضرات شریک ہوئے۔اس کانفرنس میں پاکستان کے وفد کی قیادت جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ نے کی اور ان کے ہمراہ جمعیت علماء پاکستان کے سربراپ صاحبزاد ہ ابوالخیر محمد ذبیر، جماعت اہل حرم پاکستان کے صدر مفتی گلزار نعیمی، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اسرار عباسی اور فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم شریک ہوئے۔
معروف تاریخی شخصیات نیلسن مینڈیلا کے پوتے مانڈلا مینڈیلا، مہاتما گاندھی کے پرپوتے توشار گاندھی بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس میں فلسطین سے ایسی شخصیات نے شرکت کی جو ماضی میں غاصب صیہونی حکومت کی قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیل چکے ہیں اور آج بھی کئی ایک کے پیارے صیہونی زندانوں میں قید ہیں۔32سال سے صیہونی قید میں موجود ایک فلسطینی نوجوان کی والدہ بھی اس کانفرنس کی مہمان خصوصی تھیں۔اسی طرح فلسطین میں مسجد اقصیٰ میں کئی برس تک نماز کے فرائض انجام دینے والی عظیم شخصیت مولانا فتحی رجبی بھی اس کانفرنس کی زینت تھے۔
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین سے علماء اور مشائخ کی ایک بیت بڑی تعداد اس کانفرنس میں شریک تھی اور اسی طرح عراق میں مجلس علماء رباط کے علماء کی بڑی تعداد بھی شریک رہی۔کانفرنس میں مسلمان علماء، دانشوروں کے ساتھ ساتھ سکھ مذہب اور بد مت مذہب سے تعلق رکھنے والے دانشوروں نے بھی شرکت کی۔کانفرنس میں مسیحی فلسطینی رہنماؤں کی شرکت بھی دیدنی تھی۔
حقیقت میں اس کانفرنس کے شرکاء غاصب صیہونی حکومت کے انکار کی ایک کھلی تصویر بنے ہوئے تھے کہ جہاں فلسطینی عیسائی بھی صیہونی مظالم کو بیان کر رہا تھا تو فلسطینی مسلمان مشائخ بھی مسجد اقصیٰ کے تقدس کے لئے آواز بلند کر رہے تھے۔
عالمی فلسطین کانفرنس کے پہلے اجلا س کا انعقاد امام حسین (ع) کے حرم مقدس میں کیا گیا جس کا عنوان ”فلسطین اور امام حسین“ رکھا گیا تھا۔ اس عنوان کا مقصد یہ تھا کہ امام حسین کی جدوجہد اور فلسطین کی جدوجہد میں مماثلت بیان کی جائے اور دنیا کے سامنے فلسفہ امام حسین کی روشنی میں آزادی فلسطین کی جدوجہد کو ایک نیا رخ فراہم کیا جائے۔کانفرنس میں موجودتمام ہی مندوبین اس بات پر قائل رہے کہ اگر آج امام حسین ہمارے درمیان تشریف لے آئیں تو یقینی طور پر فلسطین کی آزادی کے لئے قیام کریں گے۔کانفرنس کے پہلے جلسہ کے اختتام پر تمام شرکائے کانفرنس نے امام حسین (ع) کے حرم مقدس میں جناب عبد المہدی کربلائی کی اقتداء میں نماز ظہر اور نماز عصر ادا کی۔اس نماز میں تمام مسلمان مسالک کے علماء شریک رہے او ر پوری دنیا کے لئے یہاں سے وحدت اور اتحاد کے پیغام کو عملی فروغ دینے کا فریضہ انجام دیا۔
عراق کے مقدس شہر کربلائے معلی میں یہ عالمی فلسطین کانفرنس ایسے موقع پر منعقد کی گئی جب دنیا بھر سے زائرین امام حسین (ع) کے چہلم کی یا دمنانے پہنچ رہے تھے۔ اس موقع پر عراق کے مقدس شہر نجف سے کربلا تک زائرین کرام پیدل سفر کرتے ہوئے پہنچتے ہیں۔پیدل چلنے والے زائرین کرام کے لئے کانفرنس کی جانب سے جو نعرہ فراہم کیا گیا تھا وہ کچھ اس طرح سے تھا کہ ”چلو حسین کی طرف، نگاہ اقصیٰ پر“۔اسی طرح ”لبیک یا حسین لبیک یا اقصیٰ“ کا نعرہ بھی اس پیدل سفر میں شامل تھا۔۔
کانفرنس کے اختتام پر نجف سے کربلا جانے والے زائرین کرام کے راستے میں منتظمین کی جانب سے موکب ندائے اقصیٰ کا اہتمام کیا گیا تھا کہ جہاں فلسطین سے متعلق آگہی پر مبنی تصویری اور ڈیجیٹل نمائش لگائی گئی تھی، زائرین کرام کے لئے رکنے اور آرام کرنے کا بندوبست کیا گیا تھا جبکہ زائرین کی خدمت کے لئے چوبیس گھنٹے فلسطین سے تشریف لائے ہوئے دو درجن سے زائد علماء اور مشائخ موجو دتھے۔ اسی طرح فلسطین سے آئے ہوئے دیگر مہمانوں میں فلسطینی قصیدہ گو بھی شامل تھے جو روزانہ زائرین کرام کے لئے براہ راست فلسطین کی مزاحمت سے متعلق قصیدہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ امام حسین (ع) کی شان میں بھی قصیدہ گوئی کرتے تھے جسے عوام نے بے حد پسند کیا۔ موکب نداء الاقصیٰ کے مقام پر پول نمبر 833پر فلسطینی نوجوان شہید ابراہیم نابلسی کی تصویر اس بات کی عکاسی کر رہی تھی کہ عراق کے عوام فلسطین کے ساتھ ہیں
موکب ندائے اقصیٰ چہلم امام حسین (ع) کے موقع پر ایک منفرد مقام تھا کہ جہاں روزانہ فلسطینی علمائے کرام اور مشائخ زائرین کے لئے خدمت کرتے نظر آتے تھے۔یہ محبت اور عقدیت کی ایک والہانہ اور بے نظیر مثال تھی جسے صرف اور صرف امام حسین (ع) اور مسجد اقصیٰ کی برکت کے باعث کربلا کی زمین پر دیکھا گیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فلسطین اور امام حسین کے عنوان پر منعقدہونے والی نداء الاقصیٰ کانفرنس اور موکب نے جہاں تمام مذاہب اور مسالک کے دل آپس میں متحد کر دئیے ہیں وہاں غاصب صیہونی حکومت اور اس کے آقا امریکہ کو بھی واضح پیغام دیا ہے کہ دنیا بھر کے عوام فلسطین کے ساتھ ہیں اور اگر کچھ حکومتیں فلسطین کے ساتھ خیانت کی مرتکب ہو رہی ہیں تو اس سے فلسطین کاز کو نقصان نہیں پہنچ سکتا اور فلسطین کی آزادی اور بیت المقدس کی بازیابی ایک یقینی عمل ہے۔یہی تقدیر الہیٰ بھی ہے