مقبوضہ بیت المقدس – (مرکزاطلاعات فلسطین فاوؑنڈیشن)اسرائیل کے کثیرالاشاعت عبرانی اخبار‘یدیعوت احرونوت‘ نے انتباہات کا انکشاف کیا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سیاسی قیادت کی طرف سے گذشتہ فروری میں منعقدہ ایک خفیہ اجلاس کے دوران تمام فوجی اور سکیورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ سطحی نمائندوں نے شرکت کی۔
سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے والی قانون سازی نے مغربی کنارے میں خدمات انجام دینے والے اسرائیلی فوجیوں کے لیے “جنگی مجرموں” کے لیے پائلٹوں کے مقابلے میں آسان فرد جرم عائد کرنے کی راہ ہموار کی ہے کیونکہ ہوا میں کام کرنے والے پائلٹوں کے مقابلے میں فوجیوں کی شناخت آسان ہے۔
“یدیعوت” نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ خفیہ اجلاس جب بلایا گیا تو عدالتی قانون سازی کے خلاف احتجاج ابھی ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس دوران بحث میں شریک عسکری رہ نماؤں نے تفصیل سے بتایا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کے تعین سے متعلق قانون سازی کس طرح سے ہوتی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں پر فرد جرم عائد کرنے کی راہ ہموار کرنے سے مستقبل میں ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مغربی کنارے میں خدمات انجام دینے والوں کو پائلٹوں کے مقابلے میں “جنگی مجرم” سمجھا جاتا ہے۔
یدیعوت احرونوت نے وضاحت کی کہ اس سیشن میں گولانی بریگیڈ کے فوجیوں کے خلاف ذاتی خطرات کا اظہار کیا گیا جو جنین میں فوجی کارروائیاں کر رہی ہے، خاص طور پر چونکہ فلسطینی ان کارروائیوں کی فلم بندی کرتے ہیں اور فوجیوں کی شناخت آسانی سے اس طرح ظاہر کی جا سکتی ہے جس سے ان کی شناخت ہوتی ہے۔
قاتل فوجی ایلیور ازاریا کی بریت کی کہانی اپنی نوعیت کی واحد کہانی نہیں ہے جس میں کسی اسرائیلی فوجی یا افسر کو سپریم کورٹ کی بہ دولت بین الاقوامی استثنیٰ حاصل ہے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق موجودہ چیف آف اسٹاف ہرزی ہیلیوی اپنے آپ کو جنگی جرائم کا ملزم پایا ہوگا۔
افسران نے سیشن میں سیاسی رہ نماوں کو متنبہ کیا کہ نئی قانون سازی کے بعد سیون لائن پر دیوار کی تعمیر جیسی سکیورٹی ضروریات کے لیے فلسطینی اراضی کو ضبط کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
فوجی رہنماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کا وقار اس کے “آزاد” ہونے سے حاصل ہوتا ہے، لیکن ایک بار جب اس کے ججوں کا تقرر سیاست دانوں سے ہوتا ہے، اہلیت کے حوالے سے ان پر سوالیہ نشان لگتے ہیں۔ کچھ نئی عدالتی ترامیم کی بنیاد پر ہوگا۔
فوجی رہ نماؤں نے اس بات پر زور دیا کہ سپریم کورٹ کا وقار اس کے “آزاد” ہونے سے حاصل ہوتا ہے، لیکن جیسے ہی اس کے ججوں کا تقرر سیاست دانوں سے ہوتا ہے، اہلیت کے حوالے سے یہی کچھ نئی عدالتی ترامیم کی بنیاد پر ہو گا۔ بیرونی طور پر اس عدالت کے وقار کو نقصان پہنچے گا جو کہ “ڈھال” ہے۔
قومی سلامتی کونسل کے نمائندوں نے بحث میں امریکی قانون کے ایک حصے کو اٹھایا جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے ممالک کو فوجی اور سکیورٹی امداد کی فراہمی پر پابندی عائد کرتا ہے اور یہی وہ قانون ہے جس کی وجہ سے “اسرائیل” ہتھیاروں کی فروخت سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔