انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم “ہیومن رائٹس واچ” نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سنہ 2009ء کی غزہ جنگ کے دوران عام شہریوں کی جائیدادوں کو مسمار کرنے کے غیر قانونی اقدامات کی کھلے عام تحقیق کرے۔ غزہ کا محاصرہ فوری طور پر ختم کیا جائے کیونکہ اس کی وجہ سے لوگوں کو اپنے منہدم گھروں کی دوبارہ تعمیر میں دشواری پیش آ رہی ہے۔
تنظیم کی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر سارہ لیا ویٹسن نے جمعرات کے روز بتایا کہ جنگ ختم ہونے کے سولہ مہینوں بعد بھی اسرائیل نے اپنی فوج کے ان افراد کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا کہ جنہوں نے غیر قانونی طور پر غزہ کے ان مکانات کو مسمار کیا کہ جو دوران جنگ ان کے کنٹرول میں آ گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ کا مسلسل اسرائیلی محاصرہ اہل غزہ کو اپنے گھر تعمیر کرنے سے روک رہا ہے۔ اس سے یہی مراد لی جا سکتی ہے کہ اسرائیل جنگ ختم ہونے کے بعد بھی سویلین کو سزا دے رہا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ میں ویٹسن نے نہتے سویلین کے خلاف اسرائیل کی ان تمام کارروائیوں پر شدید تنقید کی کہ جو تل ابیب نے یا تو جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے روا رکھیں یا پھر وہ انہیں حق دفاع کا ٹیگ لگا کر عالمی تنقید سے بچانا چاہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمیں جنگ میں سویلین کے خلاف فاسفورس بموں کے استعمال کے دستاویزی ثبوت ملے ہیں۔
ہیومن رائٹس کی نمائندہ کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں کی تحقیق اور ان کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹھرے میں لا کھڑے کرنے کے لئے جو اقدامات کئے وہ ناکافی ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کی جانب سے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کا نشانہ بننے والوں کو فوری اور مناسب معاوضہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ یو این کمیشن کی اس رپورٹ پر من و عن عمل کیا جائے جسے جنوبی افریقہ کے سابق جج رچرڈ گولڈ اسٹون نے تحریر کیا۔