تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
عرب دنیا میں مسئلہ فلسطین کی حمایت سے ایک کہاوت مشہور ہے۔کہا جاتا ہے کہ الجزائر کے عوام فلسطینی عوام سے محبت کرنے میں سب سے آگے ہیں۔اسی طرح مسئلہ فلسطین سے متعلق الجزائر کے عوام مسلم اور عرب دنیا میں سب سے سبقت رکھتے ہیں۔
گذشتہ دنوں انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس سے پاکستان ایک وفد نے دورہ کیا ہے۔ اس وفد کی قیادت فلسطینی جہادی گروہ جہاد اسلامی فلسطین کے بانی رہنماؤں میں شما کئے جانے والی عظیم شخصیت السید حسین حسن البرکہ کر رہے تھے۔ راقم نے جب سید برکہ سے الجزائر کے عوام کی فلسطینی کاز سے لگاؤ اور محبت کے متعلق سوال کیا اور تصدیق کی تو سید البرکہ نے اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ یہ بات بالکل سو فیصد درست ہے کہ الجزائر کے لوگ فلسطینیوں سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد میں پیش پیش ہیں۔لہذا یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ الجزائر فلسطین کاز کی حمایت میں آگے ہے۔
چھ روزہ دورے کے اختتام پر جب فلسطین سے تشریف لائے ہوئے اس وفد کی واپسی کا وقت وریب پہنچا تو چائے کی محفل پر گفتگو کرتے ہوئے سید البرکہ نے راقم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اس دورے کے آغاز پر جو سوال الجزائر کی عوام اور فلسطین کا ز سے ان کے لگاؤ اور محبت کے بارے میں دریافت کیا تھاآج اس دورے کے اختتام پر میں آپ کو ایک حقیقت بتاتا ہوں۔
سید البرکہ نے کہا کہ الجزائر سے متعلق کہاوت درست ہے۔ لیکن میں پہلء مرتبہ پاکستان آیا ہوں اور ان چھ دنوں میں کراچی، لاہور اور اسلام آبا دمیں دو درجن سے زائد ملاقاتیں اور عوامی اجتماعات میں شرکت کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کے عوام کی فلسطینیوں سے والہانہ محبت اور قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کا جذبہ پاکستان عوام میں اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اہے کہ جس کی مثال شاید پوری دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر الجزائر کے لوگ بھی پاکستان آئیں اور یہاں پاکستان کے عوام کی فلسطینیوں سے عشق اور والہانہ محبت کو دیکھیں تو مجھے یقین ہے کہ وہ الجزائر جا کر اپنے لوگوں کو بتائیں گے کہ پاکستان فلسطینیوں کی مدد اور حمایت کرنے سمیت فلسطین کاز کے لئے سرگرم رہنے والوں میں نمبر ایک ہے۔انہوں نے اپنی بات کا اختتام کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے عوام کی یہ محبت اور لگن جو فلسطینی کاز کے ساتھ ہے شاید صحیح طرح سے فلسطین کے اندر اور عرب دنیامیں مطرح نہیں ہوئی ہے اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم واپس جا کر اپنے لوگوں کو پاکستان کے عوام کے ان جذبات اور محبت سے متعلق آگاہ کریں۔
سید البرکہ اور ان کے ہمرا وفد کے اراکین شیخ ادیب یاسر جی اور شیخ یوسف عباس نے کراچی میں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے مزار پر حاضری دی اور اسی طرح لاہور پہنچنے پر شاعر مشرق مفکر اعظم حضرت علامہ محمد اقبال کے مزار پر بھی حاضر ہوئے۔
جیسا کہ سید البرکہ نے الجزائر کے عوام کی فلسطین سے محبت کے مقابلہ میں پاکستانی عوام کی محبت کو کسی سے کم قرار نہیں دیا یقینا یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو کبھی چھپانے سے چھپائی نہیں جا سکتی ہے۔پاکستان کے عوام کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ایسے بابصیرت قائد گزرے ہیں کہ جنہوں نے تحریک آزادی پاکستان کے دوران ہمیشہ فلسطین کے لئے آواز بلند کی حالانکہ اس زمانہ میں برطانوی حکومت کا دباؤ تھا کیونکہ برطانوی حکومت ہی فلسطین کے ساتھ خیانت کی مرتکب ہو رہی تھی اور یہاں برصغیر میں بھی مسلمانوں کا مقابلہ برطانوی استعمار سے تھا۔ لیکن تمام تر رکاوٹوں اور خطرات کے باوجود پاکستانی قوم کے عظیم قائد نے ہمیشہ بے باکی کے ساتھ فلسطین کے لوگوں کے حق کی بات کی اور فلسطین کی طرف ہونے والی اس زمانہ کی صیہونی ہجرتوں کی شدید مذمت بھی کی۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے قیام سے قبل اور قیام کے بعد مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے کے لئے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں جس پر راقم پہلے ہی مقالہ لکھ چکا ہے۔
اسی طرح پاکستانی قوم کو ہی یہ اعزاز حاصل ہے کہ مفکر عظیم اور شاعر مشرق حکیم امت علامہ محمد اقبال بھی ہماری عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے فلسطین کی طرف سفر کیا اور اس زمانہ میں فلسطین کے ساتھ عالمی طاقتوں کی جانب سے ہونے والی خیانت کی اپنے اشعار اور تقاریر کے ذریعہ سخت مخالفت کی۔علامہ اقبال نے تو برطانوی استعمار کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک کہا کہ اگر فلسطین کی حمایت کے جرم میں مجھے جیل میں بھی بند کیا گیا تو بھی میں فلسطین کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوں گا۔
بہر حال الجزائر کے عوام کا اعزاز اپنی جگہ پر قائم ہے لیکن پاکستان کے عوام کی فلسطین کے ساتھ لگن اور محبت بھی دنیا بھر میں الجزائر یا کسی اور قوم سے کم نہیں ہے بلکہ زیادہ ہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ شعور اور آگہی کی بیداری نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ آج دنیا کی تمام اقوام فلسطین کا زکی حمایت کرنے میں سبقت حاصل کرنا چاہتی ہیں کیونکہ اقوام یہ جانتی ہیں کہ مظلوم کی حمایت کرنا عین عبادت ہے اور ایک انسانی فریضہ ہے تاہم اسی فریضہ کی ادائیگی میں ہی خدا وند کریم نے عزت و شرف اور کرامت رکھی ہے۔ہمیں فخر ہے کہ ہم پاکستانی ہیں اور فلسطین کے حامی ہیں۔