تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
سرزمین فلسطین اور اس کے پڑوس ممالک یعنی شام،لبنان، مصر، اردن میں خاص طور پر ایک بحث شدت سے سامنے آ رہی ہے۔اس بحث کا عنوان یہ ہے کہ کیا اسرائیل کسی بھی جنگ کے لئے تیا ر ہے؟ یہ سوال کہاں سے جنم لے رہا ہے؟ اس سوال کی بحث آخر فلسطین اور اس کے گرد ونواح میں کیوں دلچسپ ہو رہی ہے؟ اس طرح کے اور بہت سے سوالات ہیں جو جنم لے رہے ہیں۔
دراصل خطے میں بدلتا ہوا طاقت کا توازن اور شاید اگر یہ کہا جائے کہ فلسطین طاقت کا مرکز ومحور قرار پایاہے بے جا نہ ہوگا۔گذشتہ چند ہفتوں میں مقبوضہ فلسطین میں رونما ہونے والے واقعات نے شاید فلسطین کے گرد ونواح کے ممالک میں اس سوال پر بحث کو چھیڑنے میں مدد فراہم کی ہے۔ وہ خاص حالات کیا ہیں جو فلسطین کی سرزمین پر رونما ہو رہے ہیں؟
زیادہ دور تاریخ میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔آئیے سنہ 2019ء سے ہی شروع کر لیتے ہیں۔ معرکہ سیف القدس۔ جی ہاں یہ ایک ایسا معرکہ ہو اہے کہ جس نے ماڈرن دنیا کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔ حالانکہ غاصب صیہونی ریاست سے متعلق مغربی اوریورپی ممالک کا ناقابل تسخیر ہونے کا دعوی تو پہلے ہی لبنان میں سنہ 2000ء او ر پھر سنہ2006ء میں زمین بوس ہو چکا ہے لیکن ماضی قریب میں فلسطینی مزاحمت معرکہ سیف القدس کے بعد سے ایک نئے انداز سے فلسطین میں متحرک ہو چکی ہے جس کو روکنا اب غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اور اس کے لے پالکوں کے لئے مکمل طور پر نا ممکن ہو چکا ہے۔
اسی طرح آگے بڑھتے رہیں تو آپ مشاہدہ کریں گے کہ حال ہی میں جنین کیمپس میں چند نوجوانوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مزاحمت کا ایک نیا باب کھولا ہے۔مزاحمت کے ان عاشقوں نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل پر اس قدر کاری ضرب لگا دی ہے کہ یہ ضرب اب کسی مرہم سے ختم ہونے والی نہیں ہے۔ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
غاصب اسرائیل جو پہلے ہی گذشتہ آٹھ سے نو ماہ میں شدید ترین سیاسی بحران کا شکار ہے اور ایک سو پچاس سے زائد مقامات پر صیہونیوں کے اپنے ہی نظام کے خلاف احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔یہ مظاہرے پر امن نہیں ہیں بلکہ پر تشدد بھی ہیں۔ایسے حالات میں غاصب صیہونی حکومت کی فوج جنین کے ایک چھوٹے سے علاقہ میں چند درجن بھر نوجوانوں کو مزاحمت کاری سے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے۔
موساد کے سربراہ نے ایک خفیہ اجلاس میں ا س بات کا اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی فوج اور تمام تر انٹیلی جنس جنین میں مزاحمت کاروں کا راستہ روکنے میں ناکام رہی ہے۔
یہ وہ چند ایک حالات ہیں جو مسلسل خطے میں اقوام کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ کیا آئندہ کسی جنگ میں غاصب اسرائیل مقابلہ کرنے کی قوت رکھے گا؟ کیا موجودہ حالات میں کہ جہاں سیاسی انتشار ہے اور ساتھ ساتھ اسرائیلی فوج میں ایک تناؤ کی کیفیت بھی موجود ہے تو کیا ایسے حالات میں اسرائیل کی فوج اس قابل ہے کہ کسی بھی ممکنہ خطرے اور جنگ کا مقابلہ کرے؟
مندرجہ بالا سوال گذشتہ دنوں خود فلسطین کے اندر قابض صیہونیوں کے حلقوں میں اس وقت شدت سے سامنے آیا جب صیہونی حکومت کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے فوج کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ وہ لبنان کی سرحدوں پر حزب اللہ اور لبنانی عوام کے خلاف کاروائی کے لئے تیاری کریں لیکن چند لمحوں بعد ہی موساد چیف اور دیگر انٹیلی جنس افسران کی جانب سے نیتن یاہو کو واضح طور پر یہ بتایا گیا کہ موجودہ حالات میں اسرائیل کی فوج اس قابل نہیں ہے کہ وہ لبنان کی سرحد پر حزب اللہ سے مقابلہ کرے یا کسی حملہ کی تیاری کرے۔دوسری طرف لبنان میں موجود مزاحمتی تنظیم حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کئی مرتبہ اپنی گفتگو میں بتا چکے ہیں کہ اسرائیل اگر کسی جنگ کا خواہش مند ہے تو وہ اپنی خواہش پوری کر کے دیکھ لے۔اگر لبنان کی سڑکوں پر بم گرائے گئے تو تل ابیب کی سڑکیں بھی محفوظ نہیں رہیں گی اسی طرح اگر لبنان کے ہوائی اڈے کو نشانہ بنایا گیا تو تل ابیب کا ہوائی اڈہ بھی حزب اللہ کے نشانے پر موجود ہے۔یعنی سادہ الفاظ میں حزب اللہ یہ پیغام دے چکی ہے کہ اسرائیل جس طرح سے جنگ شروع کرے گا اس کو اسی طرح سے ہی جواب دیا جائے گا۔
البتہ غاصب صیہونی حکومت اپنی تمام تر کمزوریوں کو مخفی رکھنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے اور اسی وجہ سے شام اور اس سے ملحقہ علاقوں پر متعدد اوقات میں بمباری کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت جنگ کر سکتی ہے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے کیونکہ غاصب صیہونی حکومت کی اپنی فوج ہی نیتن یاہو کو کسی بھی جنگ میں جانے سے منع کر چکی ہے۔
غاصب صیہونی حکومت کا معاشرہ سیاسی تقسیم کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ عسکری شعبوں میں بھی بری طرح تقسیم کا شکار ہو چکا ہے۔ معاشرتی تقسیم یعنی نسل پرستی تو اب عروج کو پہنچ چکی ہے۔ ان تمام حالات اور واقعات کو دیکھ کر خلاصہ یہی ہے کہ غاصب صیہونی حکومت خطے میں اسلامی مزاحمت کی تحریکوں کے سامنے کسی بھی قسم کی جنگ میں شرکت سے قاصر ہے اور اسرائیل رو بہ زوال اور نابودی ہے۔