تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکریٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
جنین مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے کا ایک علاقہ ہے۔اس علاقہ کو جنین کیمپ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناجائز تسلط کے بعد سے ہمیشہ فلسطین میں انتفاضہ رہا ہے۔گذشتہ دو دہائیوں میں فلسطین مزاحمت کا مرکز غزہ کی پٹی سمجھی جاتی تھی جہاں حماس کی حکومت ہے۔فلسطین کی تحریک آزادی اور مزاحمت کی تاریخ میں ویسے تو بہت سے واقعات ہیں لیکن حالیہ دو سالوں کے واقعات نے نہ صرف فلسطین کی مزاحمت کو مزید تقویت پہنچائی ہے بلکہ ساتھ ساتھ غاصب صیہونی ریاست کے لئے بھی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
فلسطین کے مغربی کنارے میں واقع جنین کیمپ 1950 کی دہائی کے آغاز میں 1948-49 کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ فلسطین پر ناجائز تسلط قائم کرنے والی صیہونی ریاست اسرائیل اس وقت عرب ممالک کے خلاگ جنگ میں مصروف تھی۔ تاریخی شواہد کے مطابق اس دوران آٹھ لاکھ افراد کو اپنے گھروں سے جبری طورپر جلا وطن کیا گیا تھا۔ اسی سانحہ کو فلسطینی عوام نکبہ یعنی تباہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے فلسطین پر ناجائز تسلط کے خلاف فلسطینیوں کی دوسری انتفاضہ کی تحریک کے دوران جو 2000 سے شروع ہو کر 2005تک جاری رہی۔ اس دوران مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی ظم اور بربریت کے سبب پھر سے تشدد کی لہر آئی اور جنین کیمپ صیہونی جرائم کا نشانہ بنا۔
تحریک انتفاضہ کے دوران فلسطینی نوجوانوں نے اپنے دفاع کی خاطر غاصب صیہونیوں کا مقابلہ کرتے رہے۔اس دوران اپریل 2002 میں غاصب اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں نے خودکش حملے بھی کئے۔ ان واقعات میں کئی ایک صیہونی فوجی ہلاک ہوئے تاہم صیہونی فوج نے جنین کیمپ پر بڑے پیمانے پر چھاپے مارے جو 10 دن تک جاری رہے اور یہ ’جنگ جنین‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔اس لڑائی میں کم از کم 52 فلسطینی، جن میں سے نصف عام شہری تھے، غاصب صیہونی فوج کی درندگی کا نشانہ بن کر شہید ہو گئے۔ فلسطینی انتفاضہ کی دفاعی کاروائیوں میں 23اسرائیلی فوجی بھی ہلاک ہوئے۔ تقریباً 400 گھر تباہ ہوئے اور ایک چوتھائی آبادی اپنے گھروں سے محروم ہو گئی۔
فلسطین کا مغربی کنارہ جو کہ غاصب صیہونیوں کے مکمل تسلط میں ہے۔اقوام متحد ہ کی امدادی ایجنسی اونروا کے مطابق جنین کیمپ میں تقریبا چودہ ہزار فلسطینی موجود ہیں جو کہ آدھے مربع کلو میٹر سے بھی کم رقبے والے علاقے میں رہائش پذیر ہیں۔مغربی کنارے کے اس علاقہ میں فلسطینی نوجوانوں نے مزاحمت کا ایک نیا باب کھو ل دیا ہے جسے بند کرنا اب غاصب صیہونی حکومت کے بس کی بات نہیں رہی۔صیہونی حکومت کی بوکھلاہٹ اور خوفزدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ بیس سالوں میں چند روز قبل صیہونی فوج نے اس علاقہ میں جنگی ہیلی کاپٹروں سے بمباری کی جس پر خود اسرائیل کی جماعتیں تنقید کر رہی ہیں۔
حال ہی میں مورخہ تین جولائی بروز سوموار کو غاصب صیہونی افواج نے جنین کیمپ میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا جو مسلسل اڑتالیس گھنٹوں تک جاری رہا۔اس دہشت گردانہ آپریشن میں درجن بھر سے زائد معصوم اور بے گناہ فلسطینی شہید ہو ئے جبکہ ایک سو سے زائد خواتین، بچے، بوڑھے شدید زخمی ہوئے۔ساتھ ساتھ غاصب صیہونی افواج نے جنین کیمپ سے پانچ ہزار سے زائد فلسطینیوں کو جبری طور پر جنین سے نکال باہر کیا ہے۔یہ ٹھیک اسی طرح ہے جیسا کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ناجائز قیام کے وقت سنہ1948ء میں فلسطینی علاقوں سے لوگوں کو ظلم اور تشدد کے ذریعہ نکال کر ان کے گھروں پر قبضہ کیا گیا تھا۔اسی واقعہ کو نکبہ کہا جاتا ہے۔آج جنین کیمپ میں جو کچھ غاصب صیہونی افواج ظلم اور بربریت انجام دے رہی ہیں ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے لئے نکبہ کی یاد تازہ ہو چکی ہے۔
غاصب صیہونی حکومت کے وزیر بن گویر جنین کیمپ سے نکالی جانے والی آبادیوں کے گھروں کے سامنے فوجی حصار میں کھڑے ہو کر اعلان کرتا رہا ہے کہ یہ گھر ہمارے ہیں۔اصل میں غاصب صیہونی حکومت فلسطین کے تمام علاقوں میں صیہونی آباد کاری کے عمل کو تیز کرنا چاہتی ہے لیکن فلسطینی عوام اپنے گھروں اور وطن کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فلسطینی عوام کی مزاحمت اب غزہ اور دوسرے فلسطینی علاقوں سے نکل کر مغربی کنارے میں پہنچ چکی ہے جہاں غاصب صیہونی فوجیوں کے لئے دن رات گذارنا مشکل ہوتا جا رہاہے۔
غاصب صیہونی فوج نے اپنے دو روزہ جارحانہ اور غیر انسانی آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ جنین کیمپ میں حماس اور جہاد اسلامی کے مجاہدین کو نشانہ بنایا جا رہاہے تا کہ مزاحمتی گروہوں کا خاتمہ ہو سکے لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ غاصب صیہونی افواج نے فلسطینیوں کے گھروں پر بمباری کی ہے، ان کو گھروں سے نکالا ہے، جلا وطن کرنے کی کوشش کی ہے، قتل عام کیا ہے، معصوم بچے بھی مارے گئے ہیں اور خواتین بھی اس میں شامل ہیں۔لہذا صیہونی غاصب فوج کے تمام دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی عوام نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اسرائیل کے مجرمانہ قبضہ کے خاتمہ تک ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور مزاحمت کا راستہ نہیں چھوڑیں گے۔یہی حقیقت میں فلسطینیوں کا حق ہے۔ہر قوم کو اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے مزاحمت کا حق ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ صیہونی بستیوں کی آباد کاری کے سامنے ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اپنی مادر وطن کی خاطر جان قربان کریں گے لیکن اس سر زمین مقدس کو غاصب صیہونیوں کے لئے تر نوالہ نہیں بننے دیں گے۔