تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کے ساتھ دنیا بھر کے مسلمانوں کا گہرا اور عمیق رشتہ ہے۔ بر صغیر پاک و ہند میں بسنے والے مسلمانوں کا بھی اس مقدس سرزمین سے ایک والہانہ اور عقیدتی رشتہ ہمیشہ سے قائم رہا ہے۔ جس زمانہ میں بر صغیر کی سرزمین غاصب انگریز یعنی برطانوی استعمار کے تسلط میں تھی اس زمانہ سے ہی یہاں بسنے والے مسلمانوں کا رشتہ فلسطین اور فلسطینیوں کے ساتھ تھا اورانگریز حکومت کے ظلم و استبداد کے باوجود بھی یہاں کے مسلمانوں نے کبھی بھی فلسطین کے ساتھ اپنے اس لا زوال رشتہ میں کمی نہیں آنے دی۔
ایک زمانہ میں جب بر صغیر میں ہندوستان اور پاکستان کی علیحدہ علیحدہ ریاستوں یعنی انگریز سے آزادی کی جنگ چل رہی تھی اسی زمانہ میں ہی غاصب صیہونی دنیا کے مختلف ممالک میں جا جا کر امریکہ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کو فلسطین پر قبضہ کی ترغیب دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ فلسطین پر صیہونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کا منصوبہ پیش کر رہے تھے۔انہی صیہونیوں کی اس منصوبہ بندی کے سبب دنیا میں خون ریزی پروان چڑھنے لگی اور نتیجہ میں پہلی جنگ عظیم جیسا سانحہ رونما ہوا۔
بعد ازں سازشوں اور دھوکہ بازیوں سے فلسطین پر قبضہ کی مہم تیز سے تیز تر ہوتی چلی گئی۔اس زمانہ میں برصغیر میں پاکستان کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے مسلمان رہنماؤں سمیت عوام فلسطین کے خلاف ہونے والی ان تمام سازشوں سے آگاہ تھی۔کیونکہ مفتی اعظم فلسطین مفتی امین الحسینی مسلسل قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کے نام خطوط ارسال کر رہے تھے جن میں صورتحال کا جائزہ اورخلاصہ پیش کیا جا رہاتھا۔اسی طرح خلافت عثمانیہ کے خاتمہ سے قبل تک جناب عبد الحمید ثانی بھی خط و کتابت کے ذریعہ برصغیر کی قیادت کو علاقہ کی تمام تر صورتحال سے آگاہ کر رہے تھے۔
ان تمام حالات میں یہ بات مشاہدے میں آئی کہ برطانیہ جو براہ راست برصغیر پر قابض تھا وہی فلسطین پر صیہونی قبضہ کا بھی حامی تھا اور برطانوی سرپرستی میں ہی منصوبہ کو عملی جامہ پہنا یا جا رہاتھا۔ایسے حالات میں برصغیر کے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر فلسطین کاز کی حمایت کی اور اس کام میں قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال اور دیگر قائدین سمیت عوام پیش پیش رہی۔آج بھی جب پاکستان ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے قائم ہے اپنے بانیان کی سیرت کے مطابق فلسطین کا زکے ساتھ اور فلسطینیوں کا حامی ہے۔اسی بات کا نتیجہ ہے کہ سیف الاعظم بھی ایک ایسا پاکستانی ہواباز کہ جو اپنے قائدین کے نقش قدم پر چلتا ہوا ہمیشہ تاریخ میں امر رہے گا۔ یہ وہ عظیم سپوت تھا کہ جس نے غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ اسرائیلی جہازوں کو مار گرانے کا اعزاز حاصل کیا۔
سیف الاعظم 11ستمبر 1941کو مشرقی بنگال میں پیدا ہوئے۔1958 میں انہوں نے پی اے ایف سکول سرگودھا میں داخلہ لیا اور 1960 میں کمیشن حاصل کر لیا۔ ایڈوانس تربیت کے لیے انہیں امریکہ بھیجا گیا جہاں انہوں نے ٹی 33 اور ایف 86 جیسے جنگی جہاز اڑائے۔ انہیں امریکی ایئر فورس نے ماہر نشانہ باز کا اعزاز عطا کیا۔ امریکہ سے واپسی پر انہوں نے پہلے 14اور پھر 19 سکواڈرن میں خدمات سرانجام دیں۔
سیف الاعظم ایک ماہر ہوا باز تھے۔ سیف الاعظم کو 1965 میں پاکستان اور بھارت کے مابین ہونے والی جنگ میں بھی بھارتی جہاز کو مار گرانے کااعزازحاصل رہا۔ انہوں نے 19ستمبر کو سرگودھا ایئر بیس سے ایف 86 اڑاتے ہوئے یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ اسی موقع پر جہاں انہوں نے دشمن کا ایک جہاز مار گرایا وہاں دوسرے جہازوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ انہوں نے ا س جنگ میں سیالکوٹ، واہگہ اور قصور کے محاذوں پر دشمن پر بمباری کی۔ اس جنگ میں بہادری پر انہیں ستارہ جرات سے نوازا گیاتھا۔
سنہ1966ء میں سیف الاعظم کو اردن بھیجا گیا تھا جہاں ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ اردن کے ہوابازوں کو تربیت دیں گے۔ سنہ1967ء میں غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے بیک وقت عرب دنیا کے ساتھ بڑی جنگ کا آغاز کر دیا۔ اس جنگ میں مصر، اردن، شام اور عراق کی فوجیں شامل ہو گئیں۔اسرائیل کا ہدف تھا کہ وہ فلسطین کے دارلحکومت قبلہ اول بیت المقدس پر اپنا قبضہ جما لے۔سیف الاعظم جو کہ ان دنوں اردن میں ہی موجود تھے حکومت پاکستان کی اجازت ملنے کے بعد اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک ہو گئے۔سیف الاعظم نے اردن کے ہوائی اڈے کا اسرائیلی حملہ کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کا ایک جہاز مار گرایا جبکہ دوسرا جہاز بھی نقصان اٹھانے کے بعد فرار ہو گیا۔دو دن بعد غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی افواج نے جب عراق کے ایک ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تو یہاں بھی پاکستان کا عظیم فرزند سیف الاعظم ان کے مقابلہ پر آگیا اور یہاں اس معرکہ میں دو مزید اسرائیلی جہازوں کو مار گرایا۔سیف الاعظم پاکستان ائیر فوسر کے وہ عظیم کیپٹن ہیں کہ جن کو اسرائیل کے سب سے زیادہ جہاز مار گرانے کا اعزاز حاصل ہے۔
سیف الاعظم کی بہادری اور شجاعت پر جہاں پہلے ہی پاکستانی حکومت ان کو ستارہ جرات دے چکی تھی وہاں عرب دنیا میں بھی ان کو اردن کی جانب سے وسام الاستقلال اور عراق کی جانب سے ناوۃ الشجاع اعزازوں سے نوازا گیا۔
پاک فضائیہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آج بھی سیف الاعظم پیداہورہے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے۔