کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے تین عوامل کی بنا پر اسرائیل کی تباہی کا انتباہ دے دیا۔ اخبار نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر صہیونی ریاست کے ناجائز قبضے اور فلسطینیوں پر بزور بازو حکمرانی کو اسرائیلی تباہی کے بنیادی عناصر میں شمار کیا ہے۔ اخبار کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے پر قبضے کو اگلے ماہ 43 برس ہوجائیں گے، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم نے دنیا بھر میں اسے رسوا کردیا ہے۔
اخبار نے اپنی حالیہ اشاعت میں اسرائیلی کے زوال کا دوسرا سبب بے عمل یہودی بنیاد پرستوں کی بڑھتی تعداد کو قرار دیا ہے ۔ یہ لوگ اسرائیل کی فوجی خدمت کرتے ہیں نہ ضروری عصری علوم حاصل کرنے کی طرف مائل ہیں، اس طرح یہ لوگ اقتصادی، معاشرتی اور سیکیورٹی کے اعتبار سے کوئی بھی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ ان کی تعداد اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو اگلی دو یا تین دہائیوں میں اسرائیل کی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
اکیڈمی کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق اسرائیلی ریاست ایک ایسے کٹر مذہبی معاشرے میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے جہاں پر لوگ کام نہیں کرتے حتی کہ ضروری عصری علوم وفنون حاصل کرنے سے بھی گریزاں ہیں یہی لوگ اگلی دو دہائیوں میں اسرائیل کے زوال کا باعث بن جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آنے والی یہودی نسل ملکی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کرے گی، ان بدعمل انتہا پسند یہودیوں کی بڑھتی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے اسرائیل کی تباہی کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
تحقیق کے مطابق قابض صہیونی ریاست کی تباہی کا تیسرا عامل 1948 ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فلسطینی باشندوں کے خلاف برتا جانے والا امتیازی سلوک ہے جس کی بنا پر انہیں تعلیم اور روزگار سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ چیز متعصب بنیاد پرستوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ مل کر اسرائیل کے معیشت کے زوال کا سبب بن رہی ہے۔
اسی ضمن میں اسرائیلی آرمی کے چیف آف سٹاف دین ہیلٹز نے اپنی کتاب ’’ آئی لیول‘‘ میں لبنان پر حملہ کے باب میں کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست کو انسانی جانوں کے ضیاع اور زخمی ہونے کا خوف مسلسل لاحق ہے جو اسے زوال کی طرف لے جائے گا۔
ہیلٹز کے بہ قول کہ جب کسی فوجی کی زندگی ہی سب سے اہم معیار بن جائے تو ریاست کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا مہاجرین کا یہ اکٹھ ایک ایسے ریاستی معاشرے اور ثقافت میں تبدیل نہیں ہوسکا جو ایک منظم ملک ہو اور جس کے اپنے قومی اہداف اور واضح سرحدات ہوں‘‘
واضح رہے کہ بہت سے یہودی اور عرب تحقیق کار مسلسل اسرائیل کے داخلی انتشار اور زوال کی اشارے دے رہے ہیں، ان میں ڈاکٹر عزمی بشارہ، اسرائیلی تحقیق کار’’ أمنون راز‘‘ کے نام قابل ذکر ہیں، ان دونوں مشہور تجزیہ کاروں نے اسرائیل کو ایک صلیبی ریاست قرار دیا ہے اور ان خطرات کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اپنے خاتمے کے لیے خود ہی کافی ہے۔ عالم عرب کا کام صرف اس تباہی کے وقوع پذیر ہونے کا انتظار کرنا ہے۔