تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
مغربی حکومتیں آزادی اظہار کو اس حد تک ہی اہمیت دیتی ہیں جہاں تک ان کے مقاصد حاصل ہونے کے یقینی مواقع موجود ہوں۔مغربی حکومتوں کی جانب سے ہمیشہ دوسرے ممالک کے خلاف جھوٹ اور منفی پراپیگنڈا کو بھی آزادی اظہار کا نام دیا جاتا رہاہے۔اسی طرح اگر دوسرے ممالک میں کچھ حکومت مخالف عناصر حکومتوں پر تنقید کریں تو یہ مغربی حکومتیں مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ کو ترغیب دیتی ہیں کہ ان ممالک کے خلاف بھرپور قسم کا منفی پراپیگنڈا شروع کیا جائے اور پھر اسی من گھڑت منفی پراپیگنڈا کی بنیاد پر امریکہ اور برطانیہ سمیت دیگر استعماری قوتیں ایک تو اقوام متحدہ میں ان ممالک کے خلاف شکنجہ سخت کرتی ہیں دوسرا یہ کہ ان ممالک میں فوجی چڑھائی کے راستے تلاش کرتی ہیں۔ اس طرح کے حالات اور واقعات کا شکار ریاستوں میں دور حاضر میں اسلامی جمہوریہ ایران ہے کہ جس کے خلاف مغربی ذرائع ابلاغ مسلسل من گھڑت اور منفی پراپیگنڈا کر رہے ہیں اور اس تمام تر صورتحال میں امریکہ اور دیگر حواریوں کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ایران کے خلاف پابندیوں کو مزید سخت کیا جائے اور یہاں تک کہ اس منفی اور من گھڑت پراپیگنڈا کی بنیاد پر امریکہ اور اسرائیل براہ راست ایران میں مخالف قوتوں کی حمایت بھی کر رہے ہیں لیکن تاحال بری طرح ناکامی کا شکار ہیں۔ایسے ہی معاملات کی دیگر مثالوں میں ہمارے سامنے عراق، افغانستان، ویتنام، وینزویلا، چین، پاکستان اور دیگر کئی ایک ممالک شامل ہیں۔بہر حال یہ مغربی ذرائع ابلاغ کا منفی رویہ اور کردار ہے کہ جس نے دنیا میں کئی ایک اصل حقائق کی پردہ پوشی کی ہے اور ہزاروں انسانی جانوں کو موت کی آغوش تک پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے۔
آئیے اب بات کرتے ہیں مسئلہ فلسطین کی۔فلسطین پر غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کا ناجائز قبضہ اور تسلط ہے۔بین الاقوامی قوانین کی رو سے اسرائیل کی حیثیت ایک ناجائز اور غاصب ریاست کی ہے۔فلسطینی عوام بھی اسے غاصب تصور کرتے ہیں۔دنیا بھر کے اقوام بھی اسرائیل کو ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہی تصور کرتے ہیں۔پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کے بانی قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی اسرائیل کو غاصب اور ناجائز ریاست ہی قرار دیا ہے۔
غاصب اسرائیل جو مسلسل فلسطینی عوام کا قتل اوران پر انسانیت سوز مظالم کے پہاڑ توڑ رہا ہے۔مغربی ذرائع ابلاغ کی نظروں میں صیہونیوں کے مظالم جھڑپوں سے تعبیر کئے جاتے ہیں۔مغربی ذرائع ابلاغ شاید یہ کوشش کرتے ہیں کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے سفاک چہرہ کو نقاب لگا کر پیش کریں لیکن شاید مغربی ذرائع ابلاغ کے مالکان اس حقیقت سے واقف نہیں کہ اب دنیا بدل چکی ہے اور دنیا کے عوام با شعور ہیں اور ایسے منفی ہتھکنڈوں کواچھی طرح سمجھتے ہیں۔غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کی غاصب فورسزفلسطینیوں کے خلاف روزانہ ربڑ کی گولیوں، لاٹھیوں، اسٹن گرنیڈز اور آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں سینکڑوں فلسطینیوں کو گرفتار اور زخمی کیاجاتا ہے ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں سے فلسطین آئے ہوئے غیر قانونی اسرائیلی آباد کارآئے روز مسجداقصیٰ میں گھسنے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلمانوں اور عیسائیوں کے مقدس مقامات کی توہین کی جاتی ہے۔لیکن مغربی ذرائع ابلاغ صیہونی غاصب ریاست کے ان تمام جرائم کو جھڑپوں سے تعبیر کرتا ہے۔حالانکہ غاصب صیہونی حکومت ان تمام تر سنگین جرائم کے علاوہ غزہ،لبنان اور شام کے علاقوں پر آئے روز بمباری کرتی ہے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کی نظر میں یہ صرف جھڑپیں ہی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ فلسطینی، بن یامین نیتن یاہو کی فوجوں کے نشانے پر ہیں، میڈیا کی جانب سے ’اسرائیل فلسطینی جھڑپیں‘ جیسی پُر فریب اصطلاحات نے اس حقیقت کو دھندلا دیا ہے کہ جارح اسرائیل کو کمزور فلسطینیوں کے مقابلے میں جدید جنگی ٹیکنالوجی کی برتری حاصل ہے، جس کی بدولت وہ نسبتاً بڑے پیمانے پر اپنے مقابل نہتے فلسطینیوں کو جانی نقصان پہنچا رہا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ کے اس رویے نے اس حقیقت کو بھی دھندلا دیا ہے کہ فلسطینیوں کا ردعمل پچھتر سال سے جاری اس اسرائیلی پالیسی کے جواب میں ہے جس کے نتیجے میں فلسطینیوں سے ان کی زمین ہتھیا لی گئی، ان کی نسلی کُشی کے لیے وقفے وقفے سے ان کا قتل عام جاری ہے۔
تاریخی حقائق کی روشنی میں جائزہ لیں تو ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ صرف سنہ 2014 میں غزہ کی پٹی میں 551 بچوں سمیت 2251افراد کا قتل ہوا۔اسی طرح دسمبر 2008 میں شروع ہونے والے 22 روزہ ’آپریشن کاسٹ لیڈ‘ کے دوران غزہ میں تقریباً 1400 فلسطینیوں کی جان لی گئی جب کہ اس دوران فقط تین اسرائیلی مارے گئے اور اس غیر متوازن بلکہ یک طرفہ جنگ کو بھی مغربی میڈیا نے ’جھڑپوں‘ سے تعبیر کیا۔یہ مغربی حکومتوں کے نمک خوار میڈیا کی اصل حقیقت ہے۔جو حق کو چھپاتے ہیں اور جھوٹ اور باطل کی پردہ پوشی کرتا ہے۔سنہ 2018 ہی میں غزہ کی سرحد پر احتجاج کے جواب میں غاصب اسرائیلی فوج نے سینکڑوں فلسطینیوں کوقتل اور ہزاروں کو زخمی کیا اور اس تمام تر صورتحال کو مغربی ذرائع ابلاغ پر محض ’جھڑپوں میں اضافہ‘ بتایا گیا۔اسی طرح مئی 2021 میں ’آپریشن گارڈین آف دی والز‘ کے عنوان سے 11 روزہ اسرائیلی جارحیت میں 260 سے زیادہ فلسطینی قتل ہو گئے، جن میں سے تقریباً ایک چوتھائی بچے تھے۔ مگر اس درندگی کو بھی مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے فقط ’مسجد اقصیٰ میں جھڑپیں‘ کا عنوان دیا گیا۔
یقیناً اسرائیلی وحشیانہ کارروائیوں کو ’جھڑپوں‘ کے طور پر رپورٹ کرنے کے جنون کی کوئی اخلاقی بنیاد تلاش نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے کہ کوئی بھی شخص شکاری کی بندوق کا نشانہ بن جانے والے ہرن کی ہلاکت کو ’جھڑپ‘ کا نام نہیں دے گا۔ اور نہ ہی کوئی 2015 میں امریکا کی جانب سے قندوز (افغانستان) کے ہسپتال پر ہلاکت خیز بمباری کو ’چھڑپوں‘ سے تعبیر کرے گا۔ تاہم المیہ یہ ہے کہ اس واضح غیر اخلاقی عمل کے باوجود مغربی میڈیا کا اسرائیلی بیانیہ کے دفاع میں فلسطینیوں سے تعصب کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس میں سے زیادہ تر کا تعلق امریکا کی پُرجوش پشت پناہی سے ہے۔ خاص طور پر اسرائیل کے اُس نقطہ نظر کے دفاع میں جس کے تحت وہ مظلوموں کا شکار اور انہیں ذبح کرتا ہے۔
1948 میں اسرائیل کی غاصب ریاست کے قیام کے دوران دنیا نے ہزاروں فلسطینیوں کا قتل عام اور 500 سے زیادہ فلسطینی دیہاتوں کو تباہ ہوتے دیکھا، مگر شاید یہ بھی ’ایک بڑا تصادم‘ سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینیوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے کے لیے اسرائیل کی طویل مدتی پروپیگنڈہ مہم میں مغربی میڈیا فریق کا کردار ادا کر رہا ہے۔ مثال کے طور پر رواں سال فروری میں نیویارکر میگزین کے لارنس رائٹ نے ایک ویڈیو ٹوئٹ کی جس میں اسرائیلی فوجی ایک فلسطینی رضاکار کو لاتوں گھونسوں سے بری طرح پیٹ رہے تھے، مگر لارنس رائٹ نے اس ویڈیو کے ساتھ لکھا کہ ’اسرائیلی فوجی اخلاقی انحطاط اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہیں جب تک فلسطینیوں کو حقیقتاً انسان بننے کا موقع نہیں ملتا‘۔ گویا ’وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا۔
اب جیسا کہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز یروشلم اور غزہ میں غیر انسانی رویہ اپنائے ہوئے ہیں مغربی میڈیا کی جانب سے ’جھڑپوں‘ کی اصطلاح یہ جھوٹ پھیلانے کے لیے ہے کہ ہنگامہ دراصل دو مساوی فریقوں کے درمیان مقابلہ ہے۔جو کہ حقیقت سے کوسوں دور ہے۔
کون نہیں جانتا کہ اگست 2022 میں غزہ پر اسرائیلی فوج کے تین روزہ حملے میں 16 بچوں سمیت کم از کم 44 فلسطینی شہید ہوئے تھے، یہ مئی 2021 میں ہوئے ’آپریشن گارڈین آف دی والز‘ کے بعد سب سے خونریز واقعہ تھا، اگست کے اس واقعے کے نتیجے میں اسرائیلی ہلاکتیں ’صفر‘ تھیں مگر اس کے باوجود اس نسل کشی کو بھی غیر اہم خبروں کے درمیان ’جھڑپوں‘ کا نام دیا گیا۔اسی طرح حال ہی میں فلسطین کے مختلف علاقوں میں تین روزہ اور پانچ روزہ آپریشن میں جہاد اسلامی تنظیم کے کمانڈروں کا قتل اور فلسطینی عوام اور بچوں کا قتل ہونا بھی مغربی ذرائع ابلاغ کی نظر میں جھڑپیں ہی رہاہے۔حال ہی میں ایک دو سال معصوم بچہ محمد التمیمی کو اسرائیلی فوجی نے گولی مار کر قتل کیا لیکن مغربی ذرائع ابلاغ تو اس کو بھی جھڑپ کا عنوان دے کر اسرائیل کی پشت پناہی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔