Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

اسرائیل نے1967ء سے اب تک 60 ہزار انتظامی سزا کے فیصلے جاری کیے

فلسطین کلب برائے اسیران نے کہا ہے کہ قابض حکام نے فلسطین پر قابضے کے بعد سے حراستی پالیسی کو فلسطینیوں کے خلاف اجتماعی سزا کے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا ہے، کیونکہ اس نے سنہ1967ء سےاب تک 60,000 بار فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائیں۔

خیال رہے کہ کسی بھی فلسطینی کو محض شبے کی بنیاد پر جیل میں ڈالنے کے لیے صہیونی ریاست نے انتظامی قید کے حربے کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ اس پالیسی کے تحت کسی بھی فلسطینی کو غیرمعینہ مدت تک پابند سلاسل رکھا جا سکتا ہے اور اس کے حوصلے پست کرنے کے لیے اس کی انتظامی قید کی سزا میں بار بار تجدید کی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں انتظامی قید کی سزا کو غیرانسانی قرار دے کر مسترد کرچکی ہیں۔

ہفتے کو جاری کردہ ایک رپورٹ میں مرکز نے کہا کہ قابض فوج عوامی مزاحمت اور آزادی کی تحریک کی کارروائیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر انتظامی حراست کے استعمال کو بڑھا رہا ہے، کیونکہ انتظامی حراست میں شدت انقلابی صورتحال سے منسلک ہے۔ جیسے جیسے فلسطینی علاقوں میں مزاحمتی سرگرمیاں بڑھتی ہیں انتظامی قید میں بھی شدت لائی جاتی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتظامی حراست کے گراف نے ایک ٹیڑھی شکل اختیار کر لی۔ قابض ریاست کے ابتدائی سالوں کے دوران اس میں غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور ایک دہائی کے بعد اس میں بتدریج کمی آنا شروع ہو گئی یہاں تک کہ 1980 تک تقریباً صفر تک پہنچ گیا۔ 1985 میں انتظامی حراست کو نافذ کرنے کا ظالمانہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ دشمن نے ایسے فیصلوں کو فعال کرنے کا سہارا لیا جو اس کے وسیع پیمانے پر استعمال میں سہولت فراہم کرتے ہیں۔

سنہ 1987 میں پہلے انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ ہی قابض حکام نے مقبوضہ علاقوں میں آہنی پنجے کی پالیسی کے تحت انتظامی نظربندی کے اطلاق کو بڑھا دیا۔ انتظامی نظربندی کے کیسز میں اضافہ ہوا۔ اوسلو معاہدے 1994ء کے بعد اس قسم کی حراست کی تعداد میں کمی واقع ہوئی۔ سال 2000 کے آغاز میں، انتظامی نظربندوں کی تعداد صرف سات تک پہنچ گئی تھی۔

ستمبر 2000 میں الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز کے ساتھ ہی یہ غیر منصفانہ پالیسی دوبارہ سامنے آئی اورنام نہاد اسرائیلی عدالتوں کے ذریعے انتظامی احکامات کے اجراء میں اضافہ ہوا۔ بعض اوقات ہر ماہ سینکڑوں فلسطینیوں کو انتظامی قید کی سزائیں سنائی جاتیں۔ انتظامی قیدیوں کی تعداد میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
مرکز نے مزید کہا کہ انتفاضہ اقصیٰ کے پہلے سالوں میں انتظامی قیدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ پھر دوبارہ کم ہوا اور 2008 کے بعد کے سالوں کے دوران اس میں کمی دیکھی گئی یہاں تک کہ2013 کے آخر میں تقریباً 150 قیدیوں تک پہنچ گئی۔

اس کے بعد 2014 میں انتظامی قیدیوں کی تعداد میں ایک بار پھراضافہ ریکارڈ کیا گیا اور بڑھتے ہوئے تقریباً 350 قیدیوں تک پہنچ گئی۔ اکتوبر 2015 میں مسجد اقصیٰ میں کشیدگی کے بعد قابض ریاست نے دوبارہ انتظامی حراستی احکامات کے اجراء کو بڑھایا۔ ہر ماہ انتظامی احکامات کی شرح ایک ہزار سے زیادہ فیصلوں تک پہنچ گئی اور حراست کی مدت تین ماہ سے تین سال کے درمیان کردی گئی۔ سنہ 2017 میں یہ 1,700 سے زائد انتظامی فیصلوں تک پہنچ گئی۔

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan