جنین کی سڑکوں سے فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز کے انخلاء اور اس میں خصوصی صہیونی یونٹوں کی دراندازی کے درمیان چند منٹ ان یونٹوں کے لیے قتل و غارت کے بھیانک جرم کے ارتکاب کے لیے کافی تھے۔اس کثیرجہتی جرم پر فلسطینیوں کی طرف سے شدید رد عمل فطری بات تھی۔
جنین میں فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز وہاں سے نکل جانا اور صہیونی فوج کو بربریت کی اجازت دینا فلسطینی عوام کے لیے کسی بھی صورت میں ناقابل قبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اس کی ماتحت عباس ملیشیا کے لیے عوامی غیض وغضب کا باعث بن رہا ہے۔
مصنف یاسین عزالدین کا خیال ہے کہ ساتھ اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ تعاون کے بارے میں جس نے عوامی غصے کو جنم دیا۔ وہ تعاون بہت ترقی یافتہ مراحل تک پہنچ چکا ہے۔ اگرچہ فلسطینی مزاحمتی قوتیں دشمن کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے تعاون کو توڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے مزاحمت کاروں کے روزانہ تعاقب، انقلابی صورت حال کو دبانے اور اس کو ختم کرنے کے لیے حقیقی کارروائی میں اس کی شمولیت اور قابض ریاست کی دراندازی سے قبل اس کے سکیورٹی اداروں کا غائب ہو جانا، ایسے وقت میں جب جیلوں سے رہائی پانے والوں کے استقبال کے لیے جلوسوں پراپنی طاقت کا مظاہرہ کرتی ہے۔ قیدیوں اور شہیدوں کے اہل خانہ کو زدو کوب کرنا اور نہتے شہریوں کو صہیونی کو رحم وکرم چھوڑ دینے سےعوام میں شدید غم وغصے کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔
قابض کے ساتھ اتھارٹی کے تعاون پر عوام کا غصہ بھی اگلےمراحل میں جا چکا ہے۔
سنگ میل
جنین میں جو کچھ ہوا تجزیہ نگار کی رائے میں ایک سنگ میل ہے۔ فلسطینی اتھارٹی سکیورٹی سروسز کے انخلاء کا اندازجو کہ معمول اور متواترعمل بن چکا ہے۔ قابض افواج کی دراندازی سے پہلے جنین میں متعدد بار فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز وہاں سےشہریوں کوصہیونی فوج کے رحم وکرم پر چھوڑا اور خود فرار ہوگئی۔ جمعرات کی شام کو بھی ایسا ہی ہوا جب قابض فوج نے جنین پر دھاوا بولا تو فلسطینی اتھارٹی وہاں سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اس دوران قابض فوج نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چار فلسطینیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کردیا۔
دو سویلین کاروں اور فلسطینی شہریوں کے کپڑوں کے ذریعے صہیونی اسپیشل یونٹس نے جمعرات کی شام (16 مارچ) کو جنین کے وسط میں پیدل چلنے والوں سے بھری ایک گلی میں جہاں فلسطینی سکیورٹی فورسز موجود نہیں تھیں دراندازی کی تاکہ قتل عام کیا جا سکے۔ دوران قابض فوج نے القسام بریگیڈ کے دو کمانڈروں یوسف صالح برکات شریم سرایا القدس نضال امین زیدان خازم کو شہید کردیا۔
اس کے جرم کے دوران قابض فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی، جس سے سولہ سالہ بچہ عمر محمد عودین شہید ہوا جب کہ لوئی خلیل صغیربھی جام شہادت نوش کرنے ولوں میں شامل ہیں۔
وقت کے سوالات!
مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ابراہیم المدعون کا خیال ہے کہ اتھارٹی کی فورسز کا کردار بے نقاب ہو گیا ہے، خاص طور پر بار بار ہونے والے قتل کے بعد یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی فورسز نہتے شہریوں کے قتل عام میں دشمن کی سہولت کار ہے۔
المدعون نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی سروسز کے کردار اور حیثیت زوال پذیر ہے جو قابض افواج کے حملے سے پہلے پیچھے ہٹ جاتی ہے اور قتل و غارت گری کی کاروائیوں میں دشمن کو سہولت فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام میں عباس ملیشیا کی مداخلت کو دیکھ کر شدید غم و غصہ کی کیفیت پائی جاتی ہے اور ہر کوئی پوچھ رہا ہے کہ قابض فوج کے داخلے سے پہلے سکیورٹی فورسز کیوں پیچھے ہٹ جاتی ہیں؟ یہ فورسز ہمارے لوگوں کے دفاع کے لیے کیوں نہیں حرکت کرتیں؟
اس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی دستوں کو مغربی کنارے کے شہروں میں گھومنے، آسانی سے آپریشن کرنے اور پھر وہاں سے جانے کی اجازت کیوں دی گئی ہے؟ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ طاقت کے مراکزاس صورت حال کے درمیان مزاحمت کاروں کا تعاقب اور تلاش کیوں کرتے رہتے ہیں؟