تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان
گذشتہ چند برس سے امریکہ کی سرپرستی میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے لئے دنیا بھر میں نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ ان ممالک میں عرب دنیا سرفہرست ہے کہ جہاں باقاعدہ صدی کی ڈیل اور ابراہیمی معاہدے کے نام پر اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے اور عرب دنیا کے ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے عوام کی سرپرستی امریکی حکومت انجام دیتی آئی ہے۔ اسی طرح افریقی ممالک میں بھی امریکہ نے بڑے پیمانہ پر سرمایہ گذاری کی ہے تا کہ عرب ممالک کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک میں بھی غاصب صہیونیوں کی ناجائز ریاست اسرائیل کے لئے نرم گوشہ قائم کیا جائے۔ امریکی حکومت نے ا س منصوبہ کے تحت جہاں عرب اور افریقی ممالک پہلے اور دوسرے مرحلہ میں ٹارگٹ کیا وہاں ساتھ ساتھ جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کو بھی اپنے منصوبہ میں شامل کیا گیا ہے۔
عرب دنیا کے حکمرانوں نے ماضی کی امریکی حکومتوں نے اقتدار کا لالچ دے کر غاصب اسرائیل کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے پر اکسایا اور اسی طرح یہی فارمولہ افریقی ممالک میں بھی استعمال کیا گیا۔ پاکستان کو نشانہ بنانے کے لئے نت نئے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے البتہ یہاں بھی حکمران ٹولہ امریکی مفادات کے لئے موزوں ترین رہا ہے۔ گذشتہ چند برس میں پاکستان میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے متعلق اتنے واقعات رونما ہو چکے ہیں کہ جو شاید مسئلہ فلسطین کی ستر سالہ تاریخ میں کبھی رونما نہیں ہوئے اور حد تو یہ ہے کہ قومی اسمبلی تک پہنچنے والے اراکین، سابق فوجی افسران، یونیورسٹیز میں نوازے جانے والے پروفیسرز اور اسی طرح نام نہاد صحافیوں پر بھی سرمایہ کاری کی گئی ہے۔یہ ایک تفصیل طلب عنوان ہے جس پر ماضی میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مستقبل قریب میں بھی لکھا جائے گا۔
قارئین اس مقالہ میں عرب دنیا کے اسرائیل کے ساتھ قائم ہونے والے تعلقات کے تناظر میں موجودہ صورتحال پر گفتگو پیش کی جا رہی ہے جس کا مقصد قارئین کی خد مت میں یہ عرض کرنا ہے کہ ایک طرف عرب دنیا کے حکمران ہیں کہ جو اپنی غیرت وحمیت کا سودا کرتے ہوئے امریکی ایجنڈا کے مطابق غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب انہی عرب دنیا کی حکومتوں میں بسنے والی عوام ہیں کہ جنہوں نے نہ پہلے اسرائیل کو تسلیم کیا تھا اور نہ ہی آج کرتے ہیں۔
عرب دنیا کے عوام با شعور اور غیرت مند ہونے کے ساتھ ساتھ شجاعت مند ہیں کہ جنہوں نے ہمیشہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے اپنی نظریاتی نفرت کا اظہار کیا ہے۔عرب دنیا کے عوام آج بھی خطے سمیت دنیا بھر کی مشکلات اور دنیا بھر میں ہونے والی دہشت گردانہ کاروائیوں میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو ہی ملوث قرار دیتے ہیں۔عرب دنیا میں بسنے والے غیور عوام آج بھی ہمیشہ کی طرح مظلوم فلسطینی قوم کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس کی کی تازہ مثال ہمیں گذشتہ دنوں فٹبال ورلڈ کپ فیفا میں مشاہدہ کرنے کو ملی ہے کہ جہاں عرب دنیاکے اقوام نے فٹبال کھیلوں کے دوران فلسطینی پرچموں کو آویزاں کیا اور فیفا میں آئے ہوئے اسرائیلی ذرائع ابلاغ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔کئی ایک ایسی ویڈیوز اور تصاویر آج بھی سوشل میڈیا پر موجو دہیں جن میں عرب دنیا کی فلسطین اور فلسطینی کاز کے ساتھ والہانہ محبت اور لگاؤ کو مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
عرب دنیا کی حکومتیں اور حکمران چاہے عوام پر جتنا ہی جبر کریں اور چاہے جتنا ہی اسرائیل کے قریب ہو جائیں لیکن عرب دنیا کی عوام کا فیصلہ وہی ہے جو فیفا میں بھی سامنے آچکا ہے اور مزید آئے روز اس فیصلہ میں مزید تقویت حاصل ہو رہی ہے۔حال ہی میں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے اپنے ہی ایک اخبار ٹائم آف اسرائیل پر ماضی کے ایک سروے رپورٹ کی خبر نشر کی گئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سعودی عرب کہ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کا خواہاں ہے لیکن وہاں کے عوام میں جب اسرائیل سے متعلق سروے کیا گیا تو سعودی عرب کی 33فیصد عوام اسرائیل کو ایک سنگین خطرہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔بحرین کی صورتحال بھی سعودی عرب سے مختلف نہیں ہے یہاں بھی 24فیصد عوام غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کو خطر ناک تصور کرتے ہیں۔اسی طرح ترکی،مراکش اور قطر کے عوام کا فیصلہ بھی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے خلاف ہی ہے۔
مراکش کے عوام اسرائیل کے بارے میں اپنے حالیہ موقف میں واضح کر چکے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے والے مراکشی حکومت کا فیصلہ عوام کی امنگوں کی ترجمانی نہیں کرتا ہے۔یہاں تک کہ مراکش کے عوام ترکی کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو بھی نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
سعودی عرب کی 62فیصد عوام کی رائے کے مطابق اسرائیل کو باقی نہیں رہنا چاہئیے کیونکہ اسرائیل دنیا کے امن کے لئے خطرہ ہے۔متحدہ عرب امارات کہ جہاں غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے تعلقات سب سے زیادہ مضبوط ہیں وہاں بھی 17فیصد عوام نے غاصب اسرائیل کو ناجائز اور امن کے لئے خطرہ قرار دیا ہے۔
اسی سروے رپورٹ کے مطابق قطر کی 57فیصد عوام اور مراکش کی 56فیصد عوام نے اسرائیل کے خلاف فیصلہ دیا ہے اور کہا ہے کہ اسرائیل کا وجود باقی رہنا دنیا کے لئے سنگین خطرہ ہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ جن ممالک کا درج بالا سطور میں ذکر کیا گیا ہے یہاں پر پہلے ہی میڈیا پر قدغن موجود ہے اور مکمل خبر کو نکلنے نہیں دیا جاتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل نے تمام کوششوں اور بھاری سرمایہ کاری کے بعد چند عرب حکمرانوں کا ساتھ تو خرید لیا ہے لیکن عرب دنیا کے عوام نے واضح اور دو ٹوک پیغام دیا ہے کہ نہ ت وعرب دنیا کے عوام بکاؤ مال ہیں اور نہ ہی فلسطین برائے فروخت ہے۔غیرت مندوں اور با ضمیر اقوام کے لئے یہ یقینا مشعل راہ ہے۔