قابض اسرائیلی ریاست کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اتوار کے روز ہزاروں مظاہرین کے مطالبات کو مسترد کر دیا جنہوں نےحکومت کی طرف سے عدالتوں کے اختیارات محدود کرنے کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان کی انتہا پسند حکومت ایک ایسا عدالتی نظام متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جس میں عدلیہ کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسری طرف نتین یاھو اور حکومتی اتحادیوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں لاکھوں ووٹروں کا مینڈیٹ ملا ہے جس سے وہ اپنی من مانی اصلاحات کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
صیہونی اپوزیشن کے زیر اہتمام بڑے پیمانے پر مظاہرے کئی شہروں میں ہوئے جن میں پولیس کے اندازوں کے مطابق تقریباً 100,000 اسرائیلیوں نے شرکت کی۔ مظاہرین نے اصلاحات کے خلاف احتجاج کیا۔ اپوزیشن نام نہاد عدالتی اصلاحات کو “عدالتی بغاوت” سے تعبیر کرتے ہیں۔
نیتن یاہو نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ “دو ماہ قبل اسرائیل میں ایک بہت بڑا مظاہرہ ہوا تھا جہاں لاکھوں لوگ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔”
نیتن یاہو حکومت نے نومبر 2022 کے اوائل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد 29 دسمبر 2022 کو کنیسٹ میں اعتماد ووٹ حاصل کیا جس کے بعد وجود میں آنے والے حکومت کواسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو عناصرپرمشتمل حکومت قرار دیا جاتا ہے۔
اپنی ٹویٹ میں نیتن یاہو نے مزید کہا کہ “انہوں نے جس اہم ایشو کے لیے ووٹ دیا ان میں سے ایک عدالتی نظام میں اصلاحات کرنا ہے۔ ہمیں مینڈیٹ ملا ہے اور ہم اسے نافذ کریں گے۔”