پولٹ بیورو اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے رکن ڈاکٹر محمود الزھار کا کہنا ہے کہ مصر اپنی تیارکردہ مصالحتی دستاویز میں کسی ترمیم کے لئے تیار نہیں جس کی وجہ سے فلسطینی مصالحت کا عمل کٹھائی میں پڑ گیا ہے۔ مصالحت کے مسئلے پر باقی عرب دنیا کی حمایت حاصل کرنا مشکل امر نہیں۔
عرب روزنامے “القدس العربی” کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا کہ لیبیا کے شہر سرت میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس میں بڑی تعداد میں عرب قیادت کی غیر موجودگی کے باعث فلسطینیوں کے درمیان اختلافات کا خاتمہ اور مصالحت پر کوئی “بریک تھرو” نہیں ہو سکا۔ سرت عرب سربراہی اجلاس سے پہلے جو امیدیں باندھی گئیں تھیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں تھیں۔
پاپولر، ڈیموکریٹک فرنٹ کی ریشہ دوانیاں
فلسطینی رہ نما نے غزہ سے متعلق پاپولر اور ڈیموکریٹک فرنٹ کے موقف پر شدید تنقید کی۔ انہوں سوال کیا کہ یہ دونوں جماعتیں مغربی کنارے میں فلسطینیوں کے خلاف کئے جانے والے اقدامات پر خاموشی تماشائی کیوں بنی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام ان جماعتوں مسترد کر چکے ہیں، اس لئے انہیں عوامی نمائندگی کا دعوی زیب نہیں دیتا۔ ان جماعتوں کو سنہ 2006ء کے انتخابات میں واجبی کامیابی حاصل ہوئی، اس لئے یہ فلسطینیوں کی ترجمانی کا حق نہیں رکھتیں۔
ڈاکٹر الزھار نے کہا کہ پاپولر فرنٹ کو 132 ارکان کی فلسطینی مجلس قانون ساز میں صرف 03 نشتوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ ڈیموکریٹک فرنٹ، فدا اور کیمونسٹ پارٹی کو اسی ایوان میں صرف 02 نشتیں حاصل ہوئیں۔ ایسی صورتحال میں انہیں فلسطینی عوام کی ترجمانی کا حق کیونکر دیا جا سکتا ہے۔
اپنی بات جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر الزھار نے کہا کہ ہمارے مخالفین عوام پر ٹیکسوں کی بات کرتے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ سنہ 2009ء سے پہلے بلدیات کو تمام ٹیکس معاف تھے۔ سنہ 2009- 2010ء کے میزانئے میں ہم نے غزہ میں تمباکو نوشی پر ٹیکس عائد کیا جس کی شرح مغربی کنارے میں اسی نوعیت کے کاروبار پرعائد ٹیکس سے انتہائی کم ہے۔ ان لوگوں نے مغربی کنارے میں سگریٹ نوشی پر بھاری ٹیکس کے خلاف مظاہرے کیوں نہیں کئے؟
حماس نے رہ نما نے کہا کہ سر یٹ نوشی کی وباء تیزی سے عام ہو رہی ہے۔ اسے کنٹرول کرنے کی خاطر اس کی قیمت میں اضافہ ضروری تھا تاکہ اس سے حاصل ہونے والے ٹیکس کی آمدنی کو سڑکوں اورعوامی مفاد کا دوسرا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کرنے میں صرف کیا جا سکے۔ سڑکوں پر کیا جانے والا احتجاجی شور شرابہ صرف اپنی موجودگی کاثبوت اور عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔
حماس کے خاتمے کا منصوبہ
اہل غزہ کی حماس کے خلاف بغاوت کے امکان پر تبصرہ کرتے ہوئے محمود الزھار نے سوال کیا کہ ایسے خواب دیکھنے والوں کو کیا اسرائیل طاقت فراہم کرے گا کیونکہ اسی نے غزہ پر آخری جنگ مسلط کی؟! کیا پاپولر، ڈیموکریٹک فرنٹ، فتح اور علاقے میں موجود اسرائیل کے دوسرے ایجنٹ حماس کو گرانے کے لئے اپنی طاقت مجتمع کریں گے تا کہ صہیونی ریاست اور امریکا کا دیرنیہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ حماس کو مٹانے کی ہر کوشش ناکام ہو گی۔
ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا کہ کیا پاپولر اور ڈیموکریٹک فرنٹ ہی فلسطینیوں کے نمائندہ ہیں۔ کیا کیمونسٹ پارٹی اور “فتح” ہی کو فلسطینیوں کی ترجمانی کا حق زیبا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حماس کی حمایتی اس بڑی عوامی اکثریت کا ذکر کئے بغیر بات کیسے بنے گی کہ جس نے تنظیم کو حکومتی ایوان تک پہنچایا۔ مالی بحران
حماس کو درپیش مالی بحران سے متعلق افواہوں کی حقیقت واضح کرتے ہوئے ڈاکٹر الزھار نے کہا کہ حماس سنہ 2006ء سے محاصرے کا شکار ہے تاہم اس کے باوجود وہ چار برس تک حکومتی انتظام و انصرام چلا رہی ہے۔ اسے ہر جگہ دباو کا سامنا ہے۔ ہم اس صورتحال سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ ہم نے سنہ 2006ء میں جب دسویں فلسطینی حکومت کی زمام کار سبنھالی تو اس وقت سرکاری خزانے میں عمال کے لئے صرف آٹھ ماہ کی تنخواہیں باقی تھیں۔
ڈاکٹر الزھار نے کہا کہ کہ امریکا اور اسرائیل کے ڈر سے بینک بیرون فلسطین سے رقوم کی منتقلی سے انکاری ہیں۔ اسے اسرائیلی محاصرے کی کامیابی قرار دیا جاتا ہے اورپھر حماس حکومت خاتمے کی مژدے سنائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس مالی بحران کی مزید تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع مناسب نہیں۔
تبادلہ اسیران ڈیل
انہوں نے کہا کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ تل ابیب کی ہٹ دھرمی اور کبر کی وجہ سے تعلطل کا شکار ہے، اسی وجہ سےجرمنی اور مصر کی جانب سے اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کو رہا کرانے کی کوششیں تاحال رنگ نہیں لا سکیں۔
سرحدی سرنگیں
مصر اور فلسطین کی سرحد پر زیر زمین سرنگوں کے مسئلے پر کا ذکر کرتے ہوئے محمود الزھار نے کہا کہ اسے حماس اور مصر کے درمیان جنگ کے طور پر پیش کرنا مناسب نہیں۔ نہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کی سرحدوں پر زیر زمین سرنگوں کو کچھ افراد اور خاندان تجارتی منصوبے کے طور پر چلا رہے ہیں۔ حماس کی اس مسئلے پر مصر سے کوئی جنگ نہیں۔ ایک سرنگ کی بندش سے متعدد دوسری سرنگیں کھل جاتی ہیں۔ یہ ایک نفع بخش کاروبار ہے اور اول و آخر تجارتی معاملہ ہے۔ اسے چند خاندان اور تاجر آپریٹ کرتے ہیں۔ حماس کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سرنگیں غزہ کی “لائف لائن” ہیں۔ انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ انکی تنظیم غزہ میں تجارت نہیں کر رہی۔
انہوں نے کہا کہ حماس کا مطالبہ ہے کہ بند سرحدی پھاٹک کھولے جائیں تاکہ قانونی راستوں سے تجارت ممکن ہو سکے۔ ان سرحدی پھاٹکوں کی بندش سے پیدا ہونے والے مسائل کو کم کرنےکی خاطر لوگ ان سرنگوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ حماس ان سرنگوں کی حمایت کرتی ہے، یہ امر واضح کرنا ضروری ہے کہ تنظیم اس معاملے میں فریق نہیں ہیں۔