فلسطین میں اسیران کے امور کے لیے کام کرنے والے ایک کمیشن نے کہا ہے کہ اس نے دو فلسطینی بچوں پر قابض حکام کی جانب سے گرفتاری کے دوران کیے جانے والے حملے کو دستاویزی شکل دی ہے۔
کمیشن نے خاتون وکیل ہیبہ اغباریہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “اس بدسلوکی اور ذلت آمیز سلوک کی تفصیلات جس میں دو نئے گرفتار کیے گئے بچوں کو نشانہ بنایا گیا اور جنہیں مجد جیل بچوں کے سیکشن میں قید کیا گیا تھا۔
کمیشن نے کہا کہ “قابض افواج نے شمالی مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر نابلس میں بلاطہ پناہ گزین کیمپ سے یرغمال بنائے گئے 16 سالہ لڑکے ابراہیم حشاش کے خلاف جان بوجھ کر وحشیانہ اور انتقامی طریقہ اپنایا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ قابض فوج نے 9 مئی کو نوجوان حشاش کے خاندان کے گھر پر دھاوا بولا، داخلی دروازے کو توڑا، اس کے کمرے میں داخل ہوئے جب وہ سو رہا تھا۔ اس موقعے پرقابض فوج نے گھر کی تلاشی لی۔
کمیشن نے کہا کہ قابض فوجیوں نے لڑکے کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اسے گھر کے باتھ روم میں لے گئے اور جان بوجھ کر اسے خوفزدہ کرنے کے لیے پولیس کتے کو اس پر چھوڑے گئے اور دروازہ بند کر دیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ قابض فوجیوں نے اسے (حوارہ) کے حراستی مرکز میں منتقل کیا۔ اس کی برہنہ حالت میں تلاشی لی گئی اور پھر اسے سخت اور مشکل حالات زندگی کے ساتھ 13 دن تک ’بتاح تکفا‘ کے سیل میں رکھا گیا۔
جہاں تک 17 سالہ قیدی جمال حشاش کی گرفتاری کے حالات کا تعلق ہے کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لڑکے کو 16 مئی کو حوارہ چوکی سے گرفتار کیا گیا تھا۔
قابض افواج نے اس وقت اس سے پوچھ گچھ کی جب کہ اس کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی تھی اور اسے ہتھکڑیاں لگا کر باندھ دیا گیا تھا۔ من مانی طور پر اس پر حملہ کیا اور اسے تین دن کے لیے حراستی مرکز میں قید رکھا گیا۔
کمیشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس وقت قابض حکام کی جیلوں کے اندر گرفتار اور نظر بند بچوں کی تعداد تقریباً 170 ہے، جن کے خلاف اسرائیل بین الاقوامی سطح پر ممنوعہ خلاف ورزیوں پر عمل پیرا ہے۔ انہیں نا مناسب انسانی ماحول میں حراست میں رکھا جاتا ہے اور انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ تفتیش اور ٹارچر رومز، حراستی مراکز اور جیلیں بچوں کے دلوں میں دہشت اور خوف پھیلانے کی جگہوں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔