اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان سامی ابو زھری نے اپنی تنظیم کی جانب سے فلسطینی مصالحت کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ فتح کے رہ نما محمود عباس اپنے خطاب میں اس ضمن سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ مصالحت محض خالی نعرے یا کاغذ پر دستخط کا نام نہیں بلکہ یہ ایک عملی کام پر مشتمل سرگرمی ہے۔
خود ساختہ فلسطینی صدر محمود عباس کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ابوزھری نے کہا کہ “محمود عباس عملی طور پر جو کام کر رہے ہیں اس سے ان کی غیر سنجیدگی پر مہر تصدیق ثبت ہوتی ہے۔ اسرائیلی جیلوں سے رہائی پانے والے فلسطینیوں کی عباس ملیشیا کے ہاتھوں دربارہ گرفتاری ابو مازن کی عدم سنجیدگی کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔
ابو زھری نے کہا کہ محمود عباس کی تقریر سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ مصر کی تیارکردہ مصالحتی دستاویز میں اپنی من پسند شقوں پر عمل چاہتے ہیں۔ وہ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کی شقوں پر رو بہ عمل لانے کی شدید خواہش رکھتے ہیں جبکہ تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی قومی کونسل کے انتخابات کی انہیں ذرہ بھر پرواہ نہیں حالانکہ مصر کا مجوزہ مصالحتی معاہدہ ان انتخابات کے انعقاد پر بھی زور دیتا ہے۔
حماس کے ترجمان نے کہا کہ ان کی تنظیم فلسطین میں مصالحت اور مفاہمت کی شدید خواہشمند ہے تاہم اس ضمن میں مناسب حالات پیدا کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مصالحت کے لیے ایسا مناسب طریقہ کار تلاش کیا جانا ضروری ہے جسے حماس کی حمایت بھی حاصل ہو۔
ترجمان نے کہا کہ مصالحت کے مسئلہ پر محمود عباس کی حالیہ تیزی دراصل فتح اور قابض صہیونی ریاست کے درمیان ہونے والے مذاکرات کی تیاریوں پر پردہ پوشی کی ایک کوشش ہے۔ محمود عباس پوری شد و مد سے یہ بات کہ چکے ہیں کہ وہ دنیا بھر میں کسی بھی صہیونی اور یہودی سیاسی قوت کے ساتھ مذاکرات کرنے کے متمنی ہیں۔ ہم اچھی طرح باخبر ہیں کہ ان کی ایسے بیانات دراصل قابض اسرائیل کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کے آغاز کا اعلان ہیں۔
ابوزھری نے کہا کہ حماس مذاکرات کی کسی بھی ایسی دعوت کو مسترد کرتے ہیں کہ جن کے ذریعے قابض اسرائیل کے جرائم کو قانونی جواز ملتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل سے کسی بھی سطح پر ایسے مذاکرات دوبارہ شروع کر کے محمود عباس بھی ان کے جرائم میں برابر کے شریک شمار ہوں گے۔
پولٹ بیورو حماس کے سربراہ خالد مشعل کے خلاف ابو مازن کی ہرزہ سرائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے سامی ابو زھری نے کہا کہ محمود عباس کی طرف سے خالد مشعل کا ایک کسی ملک سے رابطے میں یقین دہانی سے متعلق بیان حقیقت سے عاری اور دورغ گوئی پر مبنی ہے۔ انہوں نے من گھڑت دعوی کے ذریعے حماس اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔