رائے عامہ کے ایک جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ 67 فی صد فلسطینی عوام نے “اسرائیل” کو تسلیم کرنےکے حوالے سے طے پائے نام نہاد ’اوسلو‘ معاہدے کو معطل کرنے کی حمایت کی ہے۔ 61 فی صد نے اسرائیل کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی تعاون سمیت تمام سمجھوتوں کو کالعدم قرار دینے کی حمایت کی ہے۔
فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کی طرف سے تیار کردہ سروے کے نتائج سے بتایا گیا ہے کہ جواب دہندگان میں سے 59 فیصد نے کہا کہ پی ایل او ان فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کرے گا جو مرکزی کونسل کے جاری کیے گئے تھے جبکہ 31 فیصد نے اس پر عمل درآمد کی توقع کی ہے۔
سروے میں فلسطین کے کل 120 مقامات پر 1,200 افراد کی رائے لی گئی۔
سروے سے ظاہر ہوا کہ 56 فی صد نے مرکزی کونسل کے اجلاسوں کے بائیکاٹ کرنے والوں کے موقف کی حمایت کی اور اسے غیر قانونی قرار دیا جب کہ 29 نے ان اجلاسوں کو قانونی قرار دیا۔
اسی طرح، جواب دہندگان کی اکثریت قومی کونسل کے لیے منتخب ہونے والی شخصیات سے متفق نہیں، 24 نے فلسطینی نیشنل کونسل کے سربراہ کے طور پر راحی الفتوح کے انتخاب کی حمایت کی، 26 فی صد نے حسین الشیخ کے ایگزیکٹو کے انتخاب کی حمایت کی۔ 22 فی صدد محمد مصطفیٰ کے انتخاب کی بھی حمایت کرتے ہیں۔
جواب دہندگان میں سے نصف کا خیال تھا کہ PLO اب بھی فلسطینی عوام کی جائز نمائندہ ہے۔
اور 72 فی صد کا کہنا ہے کہ وہ عام فلسطینی انتخابات چاہتے ہیں اور غزہ میں یہ فیصد بڑھ کر 75 ہو گئی ہے۔ مغربی کنارے میں 69 فی صد ہے، لیکن 52 کی اکثریت یہ نہیں سوچتی کہ انتخابات واقعی ہوں گے۔
اگر محمود عباس اور اسماعیل ہنیہ کے درمیان صدارتی انتخابات ہوئے تو عباس کو 38 ووٹ ملیں گے، جب کہ ہنیہ کے لیے 54 ووٹ ڈالنے کےتوقع ظاہر کی گئی ہے۔