قابض اسرائیل کی جیلوں میں سب سے کم عمر اردنی قیدی محمد مہدی سلیمان اپنی حراست کے نو سال مکمل کرنے کے بعد دسویں سال میں داخل ہوگیا ہے۔ اسے 15 مارچ 2013 کو اسرائیلی زندانوں میں ڈالا گیا تھا۔
اسیر مہدی سلیمان کے والد نے قدس پریس کے توسط سے اردن کی وزارت خارجہ سے ایک بار پھر اپیل کہ وہ قابض حکومت پر دباؤ ڈالے کہ تاکہ اسے بیٹے سے ملنے کی اجازت دی جائے۔ اسے 14 سال کی عمر میں گرفتار کیا گیا تھا۔
مہدی سلیمان کے والد نے بتایا کہ انہوں نے اردن میں وزارت خارجہ کے باہر اپنے بیٹے کی رہائی کی کوششوں کے لیے متعدد بار دھرنا دیا اور بھوک ہڑتالیں بھی کی ہیں۔
سلیمان نے کہا کہ بقیہ اردنی قیدیوں کی طرح ان کے بیٹے کی تکالیف جاری ہیں۔ ان کے ساتھ باضابطہ رابطے کی اجازت نہیں اور ان کے اہل خانہ کو جیلوں کے اندر ان سے ملنے سے روکا جاتا ہے۔ ان کی اپنے بیٹے سے آخری بار سنہ 2008 میں اردن کے قیدیوں اور ان کے اہل خانہ کے ہمراہ ملاقات ہوئی تھی۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ ان کے بیٹے کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اسے قید تنہائی میں رکھا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ (اردن) کی وزارت خارجہ نے مہدی کی رہائی کے لیے اب تک کوئی قابل ذکر کردار ادا نہیں کیا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ پولیس کتوں سے لیس قابض فورسز نے اس خاندان کے گھر پر اس وقت دھاوا بول دیا جب اس کا اسیر بیٹا القدس کے شمال میں سلفیت گورنری کے قریب حارث گاؤں میں تھا۔ اسے اس وقت گرفتار کر لیا جب وہ سو رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گرفتاری کے پہلے لمحوں سے قابض فوج نے اسے اس کے اہل خانہ کے سامنے بری طرح مارنا شروع کر دیا اور اسے نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا۔ پھر شمالی مغربی کنارے کے جلمہ کے تفتیشی مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ محمد کے دو بیٹوں کے تین سال کے غیر منصفانہ ٹرائلز کے بعد انہیں 15 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے علاوہ 9000 امریکی ڈالر جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔