اقوام متحدہ حرکت میں آ گئی
دنیا میں جب بھی عالمی طاقتوں کے مفاد کو نقصان پہنچے یا نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اقوام متحدہ ہمیشہ ان عالمی طاقتوں یعنی سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء اور تحفظ کے لئے حرکت میں آ جاتا ہے۔حالانکہ دنیا میں افغانستان، عراق، شام، لبنان، یمن، فلسطین، کشمیر، برما، لیبیا اور ان جیسے متعدد ممالک کے مسائل ایسے ہیں کہ جن کے لئے اقوام متحدہ نے کبھی فوری ایکشن نہیں لیا ہے اور اگر کوئی ایک آدھ قرارداد نکال بھی دی ہے تو اس پر بھی خود عملدرآمد سے قاصر رہی ہے۔علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں لیگ آف نیشن یعنی اقوام متحدہ کے پرانے ڈھانچہ کو ”کفن چوروں کی انجمن“ قرار دیا تھا۔
موجودہ حالات میں جب اقوام متحدہ کا عالمی اور علاقائی مسائل میں کردار کا مشاہدہ کرتا ہوں تو علامہ اقبال کے وہ اشعار اور ان کے مفاہیم ایک سو فیصد سچ دکھائی دیتے ہیں۔
مسئلہ فلسطین کا ہو تو اقوام متحدہ ایک بے کار ادارہ ثابت ہوتا ہے۔مسئلہ اگرکشمیر کا ہو تو یہ ادارہ بالکل ہی ناکارہ ہو جاتاہے۔اسی طرح شام میں داعش اور دہشت گرد گروہوں کو امریکہ، اسرائیل اور یورپ سمیت عرب ممالک کی طرف سے ہتھیار اور سرمایہ فراہم کرنے کا مسئلہ ہو تو اس اقوام متحدہ کو نیند سی آ جاتی ہے، عرا ق میں امریکی فوجوں کی چڑھائی اور معصوم عراقی عوام کا قتل کا مسئلہ ہو تو بھی یہ اقوام متحدہ نیند کے مزے میں رہتی ہے، افغانستان میں بیس سال تک امریکی دہشت گردی کا راج رہے تو بھی اقوا م متحدہ غائب ہو جاتی ہے، اور اب جب کہ امریکی صدر بائیڈن نے افغانستان کے عوام کا پیسہ ضبط کر کے نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا اعلان کیا ہے تو اس حق تلفی اور نا انصافی پر تو اقوام متحدہ کو کسی نے خبر ہی نہیں دی ہے کہ صاحب ایسا بھی ہو گیا ہے۔
لبنان میں اسرائیلی دہشتگردی اور امریکی دخل اندازی کے معاملہ پر بھی اقوام متحدہ خاموش ہے، لیبیا کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے لئے بھی اقوام متحدہ نے چپ سادھ لی، قطرکے خلاف سعودی عرب کی محاذ آرائی کو بھی اقوام متحدہ نیند کی گولی سمجھ کر کھا چکی ہے۔یمن تو انسانی تاریخ کا بد ترین بحران کا شکار ہے، دسیوں ہزار انسانوں کو قتل کر دیاہے، دور جدید کی دنیا میں آج بھی زمین پر ایسا خطہ ہے کہ جہاں انسان اپنی جان بچانے کے لئے درختوں کے پتے کھا کھا کر زندگی بچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ کو تو یہ بھی میسر نہیں اس جگہ کا نام بھی یمن ہے لیکن اقوام متحدہ کے پاس یمن سے زیادہ اہم مسائل میں امریکہ اور اسرائیل سمیت سرمایہ دارانہ نظام کے مالکان کا تحفظ کرنا زیادہ ضروری کام ہے جس میں اقوام متحدہ دن رات مصروف عمل ہے۔
آئیے اب یوکرائن کی ہی بات کرلیتے ہیں، اس معاملہ میں خیر اقوام متحدہ نے بہت چستی کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاید اس معاملہ میں سرمادارانہ نظام کے سرداروں کے سر قلم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں تو اقوام متحدہ نے بھی اس محاذ میں چھلانگ لگاتے ہوئے ان سروں کو کچھ دیرتک مزید گردنوں پر رہنے دینے کی کوشش شروع کی ہے۔روس کی جانب سے یوکرائین کے خلاف جاری فوجی آپریشن پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جو قرار داد لائی گئی ہے اس کو لانے والا کوئی اور نہیں بلکہ دنیا کے سیاسی افق پر شکست کھانے والے امریکہ ہے۔اب اس قرار داد پر ووٹنگ کروا دی گئی ہے تا کہ امریکی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔یہ وہی اقوام متحدہ ہے کہ جس نے دنیا میں امریکی صدور خاص طور پربل کلنٹن، جارج بش اورباراک اوبامہ سمیت ڈونالڈ ٹرمپ جیسوں کے خلاف کوئی قرار داد پیش نہیں کی گئی۔ حالانکہ مذکورہ امریکی صدور نے اپنے دور صدارت میں نو اسلامی ممالک پر حملے کئے اور ایک کروڑ دس لاکھ سے زائد مسلمانوں کو براہ راست اور بالواسطہ قتل کیا جبکہ آخری صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اسی اقوام متحدہ کے بنائے گئے عالمی قوانین کو پیرو ں تلے روند کر ایران کے سفارتی سفر کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کو عراق میں قتل کر دیا۔لیکن اقوام متحدہ ہے کہ کوئی قرار داد لانے سے قاصر رہی حتی ان دہشت گرد صدور کی مذمت نہیں کی گئی لیکن آج جب روس نے اپنے حق کے لئے یوکرائن کے معاملہ پر ایکشن لیا ہے تو آج یہی اقوام متحدہ روس کے خلاف محاذ آرائی کے لئے جمع ہو گئی ہے۔
گذشتہ دنوں روس کے خلاف لائی جانے والی امریکی تیار کردہ قرارداد نے اگر چہ ایک سو اکتالیس ووٹ اپنے حق میں حاصل کر لئے ہیں لیکن علامہ اقبال کے اشعار اور افاہیم کو درست قرار دیتے ہوئے ثابت کر دیا ہے کہ یہ ادارہ فقط ”کفن چوروں کی انجمن“ سے زیادہ نہیں ہے۔
امریکہ کی طرف سے ڈرافٹ کردہ قرار داد کو منظور کروانے کے لئے امریکی انتظامیہ نے اپنا بھرپور اثر و رسوخ استعمال کر نے کے باوجو دبھی وہ نتیجہ حاصل نہیں کیا جو کرنا چاہئیے تھا۔روس کے خلاف پیش کردہ امریکی قرارداد کے بارے میں چین کے مندوب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ قرارداد باہمی مشاورت کے ساتھ نہیں لائی گئی ہے بلکہ یکطرفہ ہے جس پر چین نے غیرحاضری کا مظاہرہ کیا ہے، اسی طرح پاکستان کہ جس کے وزیر اعظم نے حال ہی میں روس کا دورہ کیا تھا امریکی دباؤ کو مسترد کیا اور اس قرار داد سے غیر حاضر رہنے کا فیصلہ کیاجو کہ امریکہ کے لئے ایک واضح پیغام اور پاکستان اور روس کے تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔ کئی ایک ایسے ممالک ہیں جنہوں نے امریکی دباؤ کے باوجود قرار داد کے حق میں ووٹ نہیں دیا اوراس عمل سے غیر حاضر رہے۔یہ بات خو د اس بات کی عکاسی کر رہی ہے کہ امریکہ اپنی طاقت کھو چکا ہے اور اب دنیا کے چھوٹے ممالک بھی اس بات کو سمجھ چکے ہیں لیکن چند ایک ایسے ممالک موجو دہیں کہ جن کے حکمران اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امریکی دباؤ کو تسلیم کر رہے ہیں اور اس قرارداد نے واضح طور پر تقسیم کی ایک لائن کھینچ دی ہے جو امریکہ کے حق میں جاتی نظر نہیں آتی۔ماہرین کے نقطہ نگاہ کے تحت روس اور یوکرائن مسئلہ کا اصل ذمہ دار امریکہ اور نیٹو ہیں۔یوکرائن کے معاملہ سے دوسرے ممالک کو درس عبرت حاصل کرنا چاہئیے تا کہ مستقبل میں امریکہ کے دھوکہ میں آئے بغیر ممالک اپنی پالیسیوں کو مرتب کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ روس کے خلاف امریکی تیار کردی قراردادکے نتائج کا نقشہ علاقائی تقسیم کو واضح طور پر ظاہر کرتا ہے۔ روس کے کیمپ میں وسطی ایشیا سب سے زیادہ مضبوط نظر آیا۔ پانچ وسطی ایشیائی جمہوریہ میں سے کسی نے بھی اس تحریک کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔ سب یا تو ووٹنگ کے وقت غیر حاضر ہے یا پھر حصہ نہیں لیا۔
پاکستان نے اپنے تبصروں میں ”ناقابل تقسیم سلامتی” کے اصول پر زور دینے کا خاص خیال رکھا، جو روس کے موقف کی تائید ہے۔ بین الاقوامی تبصرہ نگار کہتے ہیں کہ یہ حمایت کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان روس کے سرکاری دورے پر تھے جس دن ماسکو نے سرحد پار یوکرین میں فوج بھیجی۔ہندوستان، سوویت یونین اور روس کے ساتھ قریبی تاریخی تعلقات کے باوجود، روسی مؤقف کا کچھ کم حامی دکھائی دیا، اس کے نمائندے نے ”تشدد کے فوری خاتمے اور دشمنی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
جنوبی ایشیا میں، ممالک یکساں طور پر تقسیم تھے، جن میں سے چار نے قرارداد کی حمایت کی۔ (افغانستان، بھوٹان، مالدیپ، اور نیپال)۔ اور چار (بنگلہ دیش، بھارت، پاکستان، اور سری لنکا) غیر حاضر ہے۔ اقوام متحدہ میں افغانستان کا وفد اب بھی سابق جمہوریہ افغانستان (اشرف غنی) حکومت کے نمائندوں پر مشتمل ہے۔ طالبان کی حکومت زیادہ غیر جانبدار رہی ہے، جس نے ”دونوں فریقوں ” سے ”تحمل کا مظاہرہ” کرنے کا مطالبہ کیا ہے، یہ ایک موقف ہے جو غیر حاصر مملک کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔
میانمار (برما) کہ موجودہ سربراہ نے اتوار کو ایک بار پھر روسی صدر ولادیمیر پوتن کی حمایت کا اظہار کرتے ہوئے یوکرین پر حملے کا الزام اس ملک کے رہنما پر لگایا۔ برمی زبان کے ترجمان میانما الین میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں، حکومت نے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں پر روس اور یوکرین کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنے کی سازش کرنے کا الزام بھی لگایا۔ووٹنگ سے پہلے حتمی ریمارکس میں، اقوام متحدہ میں روس کے سفیر نے مغرب کی طرف سے ”کھلی اور مذموم دھمکیوں ” کی مذمت کی تاکہ دوسرے ممالک کو قرارداد کی حمایت حاصل ہو۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس قرارداد سے یوکرین میں جنگ ختم نہیں ہوگی۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان