( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) حال ہی میں غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل کے خبر رساں ادارے ”ٹائمز آف اسرائیل“ نے اٹھارہ فروری کو ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی بحریہ کے ففتھ فلیٹ کے ساتھ امریکہ، سعودی عرب اور پاکستان کی بحری فوجوں نے مشترکہ مشقیں انجام دی ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ان مشقوں میں اسرائیل کو بھی پہلی مرتبہ دعوت دی گئی تھی۔
حالانکہ مشترکہ مشقوں میں شامل ایسے ممالک موجود تھے کہ جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہی نہیں ہیں۔ پاکستان جو کہ اسرائیل کو تسلیم ہی نہیں کرتا ہے۔سعودی عرب اگر چہ حال ہی میں اسرائیل کے ساتھ قربت بڑھا چکا ہے لیکن باقاعدہ تعلقات نہیں رکھتا لیکن ان مشقوں میں پاکستان اور سعودی عرب کے ساتھ اسرائیلی فوج کی موجودگی حیران کن ثابت ہوئی ہے۔
مشترکہ فوجی مشقوں سے متعلق اس خبر کے بارے میں عوامی حلقوں اور سیاسی حلقوں میں شدید تشویش کی لہر پائی جا رہی ہے۔حکومت پاکستان نے تا حال اس بات کی تردید جاری نہیں کی ہے اور نہ ہی دفتر خارجہ کی جانب سے اس پر کوئی وضاحتی بیان جاری کیا گیا ہے۔یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ماضی قریب میں بھی اسرائیلی خبر رساں اداروں نے اسلام آباد میں ایک اسرائیلی طیارے کی آمد کی خبر دی تھی جس پر کافی مدت تک حکومتی حلقوں میں خاموشی طاری رہی تھی اور بعد ازاں ایک موقع پر وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے فلسطین حمایت بیان جاری کرتے ہوئے معاملہ پر مٹی ڈال کر دبا دیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح ہر لحاظ سے ایک عظیم رہنما تھا۔ آپ ایک با بصیرت قائد تھے۔ آج جب ایسے حالا ت اور خبروں کا سامنا ہوتا ہے تو پاکستان کے لئے بابائے قوم کی یاد بہت ستاتی ہے۔قائد اعظم کی بصیرت کی حد تو دیکھئے کہ جب فلسطین پر صہیونیوں نے قبضہ کیا اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کے وزیر اعظم نے قائد اعظم کو ٹیلی گرام بھیجا تو قائد اعظم نے اس کا جواب بھی دینا گوارا نہ کیا۔ایسی کئی ایک مثالیں ہمیں لاطینی امریکہ کے ممالک میں کھلیوں کے میدان میں ملتی ہیں کہ جہاں آئے روز مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی اپنے مستقبل کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسرائیلی حریف کے ساتھ کھیلنے سے صرف اس لئے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ ان کا ضمیر یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے۔حالانکہ یہ کھلاڑی مسلمان بھی نہیں ہوتے۔حال ہی میں کویت کے ایک جوان کھلاڑی نے اسرائیلی کھلاڑی کے ساتھ مقابلہ سے انکار کیا ہے۔ورنہ زیادہ تر مثالیں ہمیں لاطینی امریکہ اور دوسرے ممالک سے ملتی ہیں۔حقیقت میں اسرائیل کی شہریت رکھنے والے کھلاڑی سے کھیلنے کا انکار قائد اعظم محمد علی جناح کے انہی افکار اور نظریات کی عکاس ہے جس کا مظاہرہ قائد اعظم نے قیام پاکستان کی جد و جہد میں فلسطین حمایت جد وجہد کے عنصر کو شامل کیا تھا۔
سعودی عرب جو کہ زمینی اعتبار سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مقدس سرزمین ہے۔اگر حکومتی اعتبار سے بات کی جائے تو دنیا کے مسلمان یہاں کی حکومت سے سخت متنفر ہیں۔سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کر رکھی ہے او ر وقتا فوتقا دونوں فریقوں کے مابین ملاقاتوں اور تعلقا ت کے ادوار جاری رہتے ہیں۔ان مشقو ں میں اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ سعودی عرب کی شمولیت کوئی ایسی معیوب بات محسوس نہیں ہو گی کیونکہ دونوں ہی ایک طویل مدت سے باہم گیر ہو تے آئے ہیں۔
البتہ پاکستان کی بحری افواج کا ایسی مشقوں کا حصہ بننا کہ جہاں ناجائز ریاست اسرائیل کہ جس کو پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا ہے،ان مشقوں میں شمولیت کئی ایک سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
ماہرین سیاسات اور بین الاقوامی تعلقات نے اس معاملہ پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کو خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے ایسے کسی مشترکہ پروگرام میں شمولیت سے اجتناب کرنا چاہئیے کہ جہاں سے اسرائیل ایسے موقع جات کو اپنے حق میں استعمال کرے۔پاکستان کی واضح خارجہ پالیسی ہے کہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا لہذا ایسی کسی بھی سرگرمی کا حصہ بن جانا کہ جہاں اسرائیل بھی شریک ہو پاکستان کے لئے نقصان دہ ہے اور ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر عوامی جذبات کو ابھارنے کا بہانہ بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق موجودہ حکومت جو پہلے ہی کئی ایک بحرانوں کا شکا ر ہے ایک نئے بحران کا شکار ہو سکتی ہے کیونکہ یہ اقدام جس میں پاکستان یکی بحریہ اسرائیلی بحریہ کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقوں میں شریک ہویقینا نظریہ پاکستان کی نفی کرتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات اور اسٹریٹجک اسٹڈیز کے ماہرین نے اس معاملہ پر رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ ان مشقوں کی تیاری سے قبل ہی پاکستان اور دیگر تمام ممالک کو یہ بات معلوم تھی کہ اسرائیل بھی ان مشقوں کا حصہ ہوگا تاہم ایسے حالا ت میں شرکت کا فیصلہ کرنا یقینا برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے دباؤ کے تحت انجام پایا ہو گا۔سعودی عرب جو خود ٹرمپ حکومت کے خاتمہ کے بعد امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کی پینگھیں بڑھانے کی کوشش میں سر توڑ محنت میں مصروف ہے وہاں اس بات سے بعید نہیں ہے کہ سعودی عرب کے حکمرانوں کی خواہش اور دباؤ پر ہی حکومت کو راضی کیا گیا ہو کہ ان مشقوں میں شرکت کی جائے۔اگر واقعی حکومت نے سعودی عرب کے دباؤ میں آ کر اپنی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول کو فراموش کیا ہے تو یہ پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہے۔پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہے۔ پاکستان کی افواج دنیا میں بہترین فوجوں میں شمار ہوتی ہیں۔پاکستان ایک ایٹمی طاقت رکھنے والے واحد اسلامی ملک ہے۔ اگر پاکستان اس طرح سے عرب اور دیگر چھوٹے ممالک کی ایماء اور دباؤ میں آ کر فیصلے کرے گا تو اس سے پاکستان کی ساکھ بری طرح متاثر ہو گی۔
خلاصہ یہ ہے کہ پاکستا ن میں ایک طویل مدت سے صہیونی لابی اور ا ن کے مقامی کارندے سرگرم ہیں کہ کسی طرح سے پاکستان کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی فہرست میں لایا جائے۔ یہ مقامی صہیونی لابی عرب دنیا کے ان چھوٹے چھوٹے ممالک کی مثالیں پیش کرتی ہے کہ جنہوں نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کر لئے ہیں حالانکہ یہ عرب دنیا کے چھوٹے چھوٹے شہر نما ممالک خود اپنی حفاظت اور نظام چلانے کے لئے پاکستان کے محتاج ہوتے ہیں۔ان کی سیکورٹی کے لئے پاکستان ان کی ضرورت ہے۔بہر حال ایوان اقتدار میں بیٹھے حکمرانوں اور سنجیدہ افراد کے لئے یہ واقعی لمحہ فکریہ ہے کہ کسی عرب ملک کے دباؤ میں آتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد تبدیل کر لینا اور بانی پاکستان سمیت ہزاروں قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے فلسطین پر قابض صہیونیوں کی جعلی ریاست کے ساتھ کسی ایسے مشترکہ پروگرام میں شرکت کرنا یقینا افسوس ناک ہے۔ افواج پاکستان کے سپہ سالار جو کہ ملک و قوم کی ترقی میں دن دگنی محنت میں مصروف عمل ہیں امید ہے کہ ناچیز کے اس کالم میں موجود درد اور احساس کو ضرور محسوس کریں۔کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور فلسطین ہمارا دل ہے۔شہ رگ کاٹ دی جائے یا د ل نکال دیا جائے نتیجہ ایک ہی ہے۔ہم پاکستانی ہیں اور پاکستان کا ہر شہری اپنے وطن کی سربلندی کے لئے جان دینے کا جذبہ رکھتا ہے اور اسرائی جیسی ناجائز اور قاتل ریاست کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات کو پاکستان کے لئے ننگ و عار سمجھتا ہے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان