مغربی کنارے کے شہر بیت لحم میں قائم یونیورسٹی میں عالمی قانون کے استاد اور بین الاقوامی قوانین کے ماہر ڈاکٹر عبداللہ ابو عید نے کہا کہ عالمی قانون کے تحت کسی بھی شخص کی ملک بدری غلط اور غیر قانونی اقدام ہے جس کا کسی صورت میں جواز موجود نہیں۔ چاہے کہ ملک بدری ملک کے اندر ہو یا ملک سے باہر کے لیے ہو۔ انہوں نے کہا کہ عالمی فوجداری عدالت کے قانون کے شق آٓٹھ کے تحت ملک بدری چاہے اجتماعی ہو یا اس کی نوعیت فرد کی سطح پر ہو، منظم ہو یا غیر منظم اور ملک کے اندر ہو یا باہر کسی صورت بھی جائز نہیں اور ایسا کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔ جمعرات کے روز مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے سے فلسطینیوں کی بے دخلی کا فیصلہ نیا نہیں، اس سے قبل 1969ء میں قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کی بے دخلی کے لیے اسی طرح کا فوجداری قانون منظور کر کے فلسطینیوں کو ملک سے نکالنے کا خطرناک منصوبہ تیار کیا تھا، تاہم نیا صہیونی منصوبہ اپنے جلو میں نہایت خطرناک نتائج رکھتا ہے۔ ڈاکٹر ابوعید کا کہنا تھا کہ بے دخلی سے متعلق عالمی قوانین کو خود صہیونی بھی نہیں سمجھتے۔ انہوں نےکہا کہ اسرائیل فلسطین میں دو نئے قانون بھی نافذ کرنا چاہتا ہے۔ موجودہ حالات میں اسرائیلی قانون کے تحت کسی بھی شخص کی ملک بدری کی مدت سات سال کے لیے ہے جبکہ نئے قانون کے تحت یہ ملک بدری عمر بھر کے لیے ہو گی جبکہ دوسرےقانون کے تحت ملک بدر کیے گئے شہریوں کو اپنے علاقے میں واپس آنے کے لیے اپیل کا اختیار ہے جبکہ نئے قانون کے تحت کسی بھی شہری کو اپیل دائر کرنے قبل ہی صہیونی فوجی جبراً بے دخل کر دیں گے۔ اس کی تازہ مثال صہیونی جیل سے رہائی کے فوری بعد غزہ کے شہری صباح سعید کی مغربی کنارے سے بے دخلی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کے فلسطینیوں کی بے دخلی سے متعلق فیصلے پر ردعمل نہایت مایوس کن ہے۔ فلسطینی اتھارٹی چاہے تو اسرائیل کے ساتھ کیے گئے تمام معاہدات جن میں سیکیورٹی تعاون کا معاہدہ اور اوسلو معاہدہ کالعدم قرار دے کر فلسطینیوں کی بے دخلی کا اقدام رکوائے۔ انہوں نے کہا کہ خود فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کےساتھ کیے گئے اوسلو معاہدے میں فلسطینیوں کی بے دخلی کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی کی سفارش کی گئی ہے۔ فلسطینی عالمی ماہر قانون کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے فلسطینیوں کی ملک بدری کے فیصلے کے خلاف عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ میں جانا چاہیے، جس طرح اس سے قبل مغربی کنارے میں تعمیر کی جانے والی نسلی دیوار کوغیر قانونی قرار دینے کے لیے عالمی عدالت انصاف سے فیصلہ لیا گیا۔ انہوں نے فلسطینی شہریوں سے اپیل کی کہ وہ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے خود اقدامات کریں تاکہ یہودیوں کے فیصلوں کا ناکام کیا جا سکے