( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اگر مسلم دنیا کے ممالک متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی وضع کریں تو یقینا جہاں اسلام فوبیا کے خلاف سازشوں کو چکنا چور کیا جاسکتا ہے وہاں ساتھ ساتھ مسلم دنیا کا ایک ایسا بلاک بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے جو او آئی سی کی موجودہ صورتحال سے زیادہ بہتر کام کرے۔
دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات اور بالخصوص مغربی دنیا کی جانب سے اسلام فوبیا کے پراپیگنڈے کے تناظر میں وقت کی سب سے اہم ترین ضرورت ہے کہ دنیائے اسلام باہمی اتحاد اور یکجہتی کے ساتھ عالمی سیاسی منظر نامہ کو اپنے حق میں تبدیل کرے اور ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف جاری سازشوں اور جھوٹ پر مبنی پراپیگنڈا کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں رونما ہونے والی بہت ساری تبدیلیوں میں ایک تبدیلی اسلام کے خلاف منفی پراپیگنڈا کو عام کرنا تھاجس کے لئے مغربی دنیا نے نت نئے انداز اپناتے ہوئے اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس نے ایک طرف دنیا میں کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل کو جنم دیااور اسرائیلی اور بھارت دہشت گردی کو مغربی دنیا کے نام نہاد لیبل کے ساتھ پروان چڑھایا تو دوسری طرف اسرائیل اور بھارت جیسی درندہ صفت دہشت گرد ریاستوں کے خلاف جدوجہد کرنے والے کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کو دہشت گرد ی کا مغربی لیبل لگایا جانے لگا۔
اگر چہ مغربی دنیا اپنی مکروہ اور ناپاک سازشوں کے ذریعہ عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی متعدد کوششیں انجام دے چکی تھی جس کے نتیجہ میں خلاف عثمانیہ کا سکوت اور اسی طرح نت نئی حکومتوں کا قیام عمل میں آیاتھا۔
مغربی دنیا کی حکومتیں یہ بات اچھی طرح جان چکی تھیں کہ ان کا مقابلہ اسلام سے ہی ہے، یہ سب کچھ انہوں نے ماضی کی جنگوں اور تجربات سے اخذ کیا تھا تاہم ان کا بنیادی ہدف یہی قرار تھا کہ دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے اسلام کو نا امنی والا مذہب قرار دیا جائے اور اس طرح دنیا کی اقوام کو اسلام کی اصل اور خوبصورت تعلیمات اور روشن چہرہ سے دور کر کے اندھیری دنیا میں رکھا جائےجبکہ مغربی دنیا نے اپنے ان عزائم کی تکمیل کے لئے جہاں مال و دولت کا استعمال کیا وہاں ساتھ ساتھ اسلام کے نام پر نت نئے گروہوں کو جنم دے کر ان کے ذریعہ اسلام کے چہرہ کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا کی حکومتوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو سفاکیت اور دہشت گردی ہی ان کی بنیاد تھی جیسا کہ انہوں نے پہلی جنگ عظیم اور پھر دوسری جنگ عظیم میں انسانیت سوز مظالم کی داستانیں رقم کی ہیں۔
دور حاضر کی دنیا میں مغربی دنیا کی حکومتوں کے پاس صرف اور صرف ایک ہی طریقہ واردات باقی ہے کہ جب بھی یورپ اور مغرب میں کوئی حادثہ رونما ہو جائے تو اس کو مدعا بناتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ مہم شروع کر دی جاتی ہے تا کہ اسلام کے خلاف لوگوں کے جذبات کو بڑھاوا دیا جائے اور دنیا کی اقوام کو اسلام کی روشن اور سنہری تعلیمات سے دور کیا جائے، دوسری طرف خود مغربی و یورپی دنیا میں روز مرہ متعدد ایسے ہی ملتے جلتے واقعات میں یورپی اور مغربی ممالک کے شہری ملوث ہوں تو ان کے لئے نہ صرف خاموشی اختیار کی جاتی ہے بلکہ ان کی مذہبی وابستگی کو بھی پوشیدہ رکھا جاتا ہے او ر مغربی میڈیا پر اس طرح کی کوئی بحث سامنے نہیں آتی کہ اس واقع میں ملوث فرد کون ہے اور کس مذہب سے تعلق رکھتا ہے بلکہ ہر طرف ایک خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
جیسا کہ درج بالا سطور میں اسلام کے نام پر قائم کروائے جانے والے گروہوں کی بات کی گئی ہے اس عنوان سے کئی ایک ایسے گروہوں نے جنم لیا ہے جن کا ظاہری نعرہ اسلام کے لئے ہی تھا لیکن پس پردہ اور حقیقتا یہ گروہ مغربی دنیا بالخصوص امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی قوتوں کی ایماء پر قائم ہوئے تھے اور ان کو باقاعدہ ایسے کام انجام دینے کی تربیت دے کر لانچ کیا گیا تھا کہ جس کو بعد میں بنیاد بنا کر مغربی حکومتو ں نے اسلام کے خلاف مہم جوئی کی۔یعنی حالیہ زمانہ کی ایک مثال داعش کی ہے۔
داعش ایسے عناصر کا مرکب تھی کہ جن کی تربیت خود امریکی اور اسرائیلی ایجنسیوں نے کی تھی اور ان کو مسلم دنیا کے چند ممالک میں مالی اور مسلح مدد کے ساتھ وارد کیا تھا اور پھر ان کے ہاتھوں انجام پانے والی سفاکیت اور بربریت کو چند گھنٹوں میں ویڈیوز کی صورت میں پوری دنیا میں نشر کر دیا جاتا تھا، داعش کی جانب سے انجام دی جانے والی سفاکیت کی اسلام میں سختی سے ممانعت پائی جاتی ہے حتیٰ کہ دیگر الہی ادیان بھی اس طرح کی بربریت کی اجازت نہیں دیتے۔تاہم اس دہشت گرد گروہ کے بانیوں بشمول امریکہ، برطانیہ اور اسرائیل سمیت یورپی قوتوں نے جہاں ایک طرف اس دہشت گرد گروہ کی سفاکیت کو اسلام کے پرچم کے ساتھ جو ڑ کر دنیا کی اقوام کے سامنے اسلام کو بدنام کیا وہاں ساتھ ساتھ فلسطین میں بد ترین اسرائیل ظلم اور بربریت کی پردہ پوشی کرتے ہوئے دنیا کی توجہ فلسطینی عوام پر ہونے والے اسرائیلی مظالم سے ہٹانے کی بھی کوشش کی۔ اسی طرح پاکستان اور گرد و نواح میں بھی امریکی و صہیونی تربیت یافتہ گروہوں کے ذریعہ جہاں خطے کو غیر مستحکم کیا گیا وہاں ساتھ ساتھ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلہ سے توجہ کو بھی ہٹانے کی کوشش تھی۔
اس صورتحال میں کہ جب دشمن نے اسلام کو اپنا نشانہ ہدف قرار دے رکھا ہے تو دنیائے اسلام کے ممالک اور ان کی حکومتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ دشمن کے اس مکروہ اور بھیانک منصوبہ کو ہر سطح پر ناکام بنائیں۔ داعش کا خاتمہ شام و عراق میں ہو چکا ہے لیکن دشمن اب بھی اپنے اسی منصوبہ کے ساتھ افغانستان اور پاکستان سمیت دیگر اہم ممالک میں اپنی گھناؤنی سازشوں میں مصروف ہے، آج دنیائے اسلام کے باہمی اتحاد اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے تا کہ دنیا کی دیگر اقوام کے سامنے مغربی دنیا کی حکومتوں کے اسلام مخالف پراپیگنڈا کو ناکام کیا جائے۔
اگر مسلم دنیا کے ممالک متحد ہو کر مشترکہ حکمت عملی وضع کریں تو یقینا جہاں اسلام فوبیا کے خلاف سازشوں کو چکنا چور کیا جاسکتا ہے وہاں ساتھ ساتھ مسلم دنیا کا ایک ایسا بلاک بھی تشکیل دیا جا سکتا ہے جو او آئی سی کی موجودہ صورتحال سے زیادہ بہتر کام کرے۔اگر اوآئی سی بھی اپنے کاندھوں پر اس ذمہ داری کا بوجھ اٹھا سکے تو یہ بھی عالم اسلام کے لئے مثبت ثابت ہو گاساتھ ہی مسلم دنیا کے ممالک اگر اسلام فوبیا کے خلاف ایک نقطہ پر جمع ہو جائیں تو اس قابل ہو سکتے ہیں کہ آئندہ زمانے میں مشترکہ کرنسی، مشترکہ پارلیمنٹ اورسرحدوں سے آزاد ہو جائیں۔ان اقدامات کے نتیجہ میں یقینا مسئلہ فلسطین بھی منصفانہ انداز میں حل ہو جائے گا اور ساتھ ساتھ کشمیر سمیت مسلم امہ کے دیگر ایسے تمام مسائل کا حل نکالا جا سکتاہے۔لہذا دور حاضر میں دشمن کی سازشوں اور اسلام فوبیا کا خاتمہ کرنے کے لئے دنیائے اسلام کا اتحاد نا گزیر ہے اور اس اتحاد کے لئے مسلم معاشروں کے تمام افراد کو انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اپنی ذمہ داریوں کو انجام دینا ہو گا تا کہ ان انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے نتیجہ میں دنیائے اسلام کا اتحاد عملی جامہ پہن سکے۔
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان