مقبوضہ بیت المقدس میں قائم “اورینٹ ہاؤس” کے شعبہ مخطوطات و نقشہ جات کے ڈائریکٹر انجینئر خلیل تفکجی نے کہا کہ اسرائیل سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مذہب کو استعمال کر رہا ہے، مقبوضہ بیت المقدس میں تاریخی اسلامی آثارکی بنیادوں پر صہیونیت کی بنیادیں رکھنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل مقبوضہ بیت المقدس سے فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کے باوجود وہاں یہودیوں کے تہذیبی اور تاریخی آثار ثابت نہیں کر سکا اور مسلمانوں کے مقدس مقام کے تاریخی آثار کو تبدیل کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ بدھ کے روز خلیل تفکجی نے مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ صہیونیوں کا خیال ہے کہ یہودیوں کی عبادت گاہیں ان کی تاریخی میراث ہیں۔ یہی وجہ ہے مقبوضہ بیت المقدس میں یہودیوں کے تاریخی آثار ثابت نہ ہونےکے بعد کنیسوں کی تعمیر پر زور دیا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ کینسوں کی تعمیر کر کے شہرمقدس کو یہودیوں کی ملکیت ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مسجد اقصیٰ کی بنیادوں کی کھدائی سے متعلق سوال کے جواب میں خلیل تفجکی کا کہنا تھا کہ اسرائیل” مشرقی اور مغربی بیت المقدس” کو باہم ملانے کے لیے کھدائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کا مقصد فلسطین میں دو ریاستی حل اور بیت المقدس کےدونوں ریاستوں کے دارالحکومت کے نظریے کو ختم کر کے یہ ثابت کرنا کہ بیت المقدس پر صرف یہودیوں کا حق ہے فلسطینی اس پر کوئی حق نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل گذشتہ 42 سال سے بیت المقدس کو یہودیت میں تبدیل کرنے کی سازشوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ فلسطینیوں کی مسلسل بے دخلی اور یہودی تہذیب کے آثارثابت ہونے میں ناکامی کے بعد اب یہودی عبادت گاہوں کی تعمیر پرتوجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔