مصر کے عربی زبان کے معروف ادیب محمد حسین ھیکل نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین جس تشویشناک صورت حال سے گذر رہا ہے اورغزہ کے شہری جس نوعیت کی مشکلات کا شکار ہیں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے شہریوں کی بھوک اور افلاس کی ذمہ دارصرف صہیون ریاست نہیں بلکہ عرب ممالک بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔
مصری ادیب نے ان خیالات کا اظہار مصر کے ججزکلب کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے وفد، میڈیا کے نمائندوں اور ججوں کے ایک وفد سے قاہرہ میں ملاقات کے دوران کیا۔
انہوں نے کہا کہ”اسرائیل۔ عرب” کشمکش اپنے دور کے خطرناک ترین مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور اس کے منفی اثرات صرف فلسطین پر نہیں بلکہ براہ راست مصر پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ھیکل کا کہنا تھا کہ خطے میں قیام امن کے لیے پیش کردہ ایجنڈا عربوں یا فلسطینیوں کا نہیں صرف اسرائیل کا ایجنڈا ہےاور صہیونی ریاست اپنی مرضی کا امن قائم کرنا چاہتی ہے۔
محمد حسین ھیکل کا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے مکروفریب اور مخصوص انداز میں خطے کے ممالک کی جانب بڑھ رہا ہے اور اس کی راہ روکنے والا کوئی بھی نہیں بلکہ بدقسمتی سے اسرائیل کی اس کے مذموم مقاصد کی طرف راہ ہموار کی جا رہی ہے، اسرائیل عرب ممالک کوعلاقائی جنگوں میں الجھا کرعالم عرب کواپنے اندرجذب کرنا چاہتا ہے، عرب ممالک کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کا حقیقی دشمن کون ہے اور ان کی اصل جنگ کس کےخلاف ہونی چاہیے۔
مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کو”مذاق” قرار دیتے ہوئے محمد حسین ھیکل کا کہنا تھا کہ”ہمیں صہیونی ریاست سے مذاکرات سے قبل قوت کےتوازن کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ایران کے بارے میں عرب ممالک بالخصوص مصر کے سخت رویہ اختیار کرنے پر کڑی تنقید کی اور کہا کہ” میری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ مصرخود کو ایران کے دشمنوں کی صف میں کیوں کھڑا کرنا چاہتا ہے، اسرائیل سے یکجہتی کا اظہار کیوں کر رہا ہے، حالانکہ ہمارا دشمن ایران نہیں بلکہ اسرائیل ہے جو کئی بارمصر پر جنگ مسلط کر چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آیا ایران کا ایٹم بم جو دس سال بعد تیار ہو گا مصر کے لیے خطرہ ہے یا اس وقت اسرائیل کے پاس موجود 150 وارہیڈز خطرہ ہیں جو مصر کے سرپر لٹکتی تلوار ہیں۔
مصری ادیب نے کہا کہ ہمیں خود اپنے کام اور ذمہ داریوں کا احساس نہیں، خطے کے ممالک کےمسائل اور مسئلہ فلسطین کے حل نہ ہونے کی ایک بڑی ذمہ داری مصر پربھی عائد ہوتی ہے