لاہور (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات ) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے قوم سے دردمندانہ اپیل کی ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینے میں فلسطینی مسلمانوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور ان کے حق آزادی کے لیے بھرپور آواز بلند کریں۔
منصورہ سے جاری ایک اہم بیان میں انھوں نے پاکستانی علما سے اپیل کی کہ وہ منبر و محراب کو صیہونی جاہریت کو بے نقاب کرنے اور عوام الناس میں قبلہ اوّل اور اس کی اسلامی تاریخ کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کے لیے استعمال کریں۔ رمضان المبارک کے آنے والے جمعۃ المبارک کے دو ایام کو خصوصی طور پر فلسطینی مسلمانوں کی تحریک آزادی اور ان کی قربانیوں کے ذکر اور خصوصی دعاؤں کے لیے مختص کیا جائے۔
سراج الحق نے اس امر پر انتہائی تشویش کا اظہارکیا کہ مسجد اقصیٰ کے اہم داخلی دروازے باب العامود کو گزشتہ تین روز سے اسرائیلی قابض فورسز نے جگہ جگہ جنگلے لگا کر بند کر دیا ہے اور فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو محدود کررکھا ہے۔ فلسطینی نوجوان اور صیہونی فورسز کے درمیان لڑائی جاری ہے۔ یہودی بنیاد پرستوں نے رمضان المبارک میں اس جگہ اپنا مذہبی اجتماع اور رسومات ادا کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی قابض انتظامیہ کی کوشش رہتی ہے کہ مسجد اقصیٰ کے چاروں اطراف اور مسجد کے دروازوں کے سامنے بھی ایسی رکاوٹیں کھڑی کی جائیں جس سے فلسطینیوں کی مسجد میں آنے جانے کی نقل و حرکت محدود ہو۔ ان کی کوشش ہے کہ بیت المقدس سے اسلامی ثقافتی اور تاریخی نقوش کو مٹایا جائے اور یہودی اثرات کو راسخ تر کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ عالمی ضمیر اسرائیلی قبضہ پر خاموش تماشائی بنا ہوا ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ کشمیر میں لاکھوں مسلمانوں کی زندگیوں کو بھارتی قابض فورسز نے اجیرن بنا رکھا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود عرصہ ستر برس سے کشمیر کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ اقوام متحدہ خاموش ہے ۔ انھوں نے قوم سے اپیل کی کہ کشمیری مسلمانوں کی آزادی کے لیے خصوصی دعا کی جائے۔
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ اس وقت امت مسلمہ ایک تلخ دور سے گزر رہی ہے۔ بے پناہ قدرتی خزانوں کے مالک ہونے کے باوجود مسلم ممالک کو غربت، بے روزگاری، بدامنی اور جہالت کے گھمبیر مسائل نے گھیراہوا ہے۔ مسلم دنیا کے چند ہی ایسے حکمران ہوں گے جن کو اپنی عوام کی کوئی فکر ہے۔ مغرب نے امت مسلمہ کو سازشوں کے ذریعے فروعی اختلافات میں تقسیم کیا ہوا ہے۔کشمیر، فلسطین، برما، شام، افغانستان اور دیگر ممالک میں لاکھوں مسلمان انتہائی تکلیف دہ حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ روزانہ کئی اموات ہوتی ہیں۔ کئی علاقوں میں قحط کی سی صورت حال ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ امت مسلمہ کا متحد ہو کر جدوجہد نہ کرنا ہے۔
انھوں نے کہا کہ او آئی سی کے فورم کو مسلم ممالک کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ علما اور قائدین اتحاد امت کے لیے کردار ادا کریں۔ لوگوں میں قرآن و سنت کی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ نئی نسل کو اسلامی تاریخ کے درخشاں ادوار سے روشناس کرایا جائے۔ مسلم ممالک میں موجود قدرتی وسائل کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہو کر رہے گی۔ اللہ کا دیا گیا آفاقی نظام ہی دنیا کے مسائل کے حل کے لیے بہترین نسخہ ہے۔
ے۔