فلسطینیوں سے نفرت اورعرب دشمنی صہیونیت کو ورثے میں ملی ہے، جس کا اظہارپچھلے چھ عشروں سے زائد عرصے میں زیادہ واضح انداز میں فلسطین میں دیکھا جا رہا ہے۔ حال ہی میں مصر کی الازھریونیورسٹی کے اسلامک اسٹڈی کے شعبہ برائے عبرانی ادب کے زیراہتمام تین روزہ سیمینارمنعقد کیا گیا۔ سیمینارمیں قدیم و جدید عبرانی ادب اورصہیونی مقاصد پرمختلف ماہرین تعلیم نے روشنی ڈالی۔
سیمینارکے تیسرے اورآخری سیشن میں جامعہ ازہر کی دو خواتین اسکالرزاپنے اپنے مقالات میں کہا کہ” صہیونی ادیب عبرانی ادب میں فلسطینیوں اورعربوں سے کھلے عام نفرت کی تعلیم دے رہے ہیں”۔
اس موقع پر یونیورسٹی کے عبرانی شعبے کی ڈین جمیلہ احمد نے کہا کہ عبرانی ادب بالخصوص بچوں کے لیے عبرانی زبان میں تیار کیے جانے والے لٹریچر میں نوخیز ذہنوں کوعرب دشمنی کی زہرسے بھرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ عبرانی لٹریچرمیں فلسطینیوں کو”قدیم دور کی جنگلی اور وحشی مخلوق” کے طورپر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کے ذہنوں میں صہیونیت کے ناپاک اور نفرت سے بھرپور مقاصد کو راسخ کیا جاتا ہے۔
“بچوں کے عبرانی ادب میں عرب بدویت کی تصویر” کے عنوان سے جمیلہ نے اپنے مقالے میں ایک یہودی مصنف کی کتاب سے چند اقتباسات بھی پیش کیے ہیں، صہیونی ادیب یہودی بچوں کی تعلیم کے لیے لٹریچر کی تیاری کی یوں تعلیم دیتا ہے” ہم اسرائیلی ہیں”، عربوں کے ساتھ ہماری جنگ جاری ہے اور جاری رہے گی”،” ہم خون کے تالاب میں زندگی گزار رہے ہیں،ایسے میں ہمیں اپنے بچوں کو حقیقت سے قریب تر کرتے ہوئے ان کے لیے تتلیوں اور پھولوں کے قصے لکھنے کے بجائے انہیں ایسا لٹریچر فراہم کرنا چاہیے جس سے وہ عربوں اور اپنی حیثیت کے درمیان فرق کر سکیں”۔
جمیلہ احمد نے مزید کہا کہ عبرانی ادب میں بچوں کی ذہن سازی کرتے ہوئے انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہودی ایک مقدس مخلوق ہیں، فلسطین میں رہائش اور اقامت ان کا حق ہے، ان کے علاوہ کسی دوسری قوم کے لیے یہ حق نہیں وہ کہ مقدس مخلوق کی جگہ رہائش اختیارکریں یا ان پر بالا دستی قائم کریں۔
اس موقع پر جامعہ ازھرکے شعبہ عبرانی زبان وادب کی استاذ عائشہ زیدان نے “عرب بدویت جدید عبرانی ادب کی نظر میں” کے عنوان سے مقالہ پیش کیا۔ وہ اپنے مقالے میں رقم طراز ہیں کہ” بچوں کےلیے تیار کیے جانے والے عبرانی ادب میں بچوں کو بتایا جاتا ہے کہ عرب دنیا کی نیچ اور گھٹیا مخلوق ہیں، خون خواری، قدامت پسندی اور یہودیوں سے دشمنی عربوں کی وراثت کا حصہ ہے، مزید یہ کہ عربوں کا اپنی سرزمین کے دفاع کا دعویٰ پر امن رہنے والی یہودی قوم کے خلاف شرپسندی ہے”۔
انہوں نے اپنے مقالے میں عبرانی زبان و ادب کے مختلف تاریخی دھاروں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسطین اور عرب دشمنی یہودیوں کی تاریخ میں ہمیشہ رہی ہے۔ یہودیوں کی فلسطین کی طرف پہلی ھجرت 1881ء میں بھی یہودی ادیبوں اور شاعروں نے اپنی قوم کو بتانے کی کوشش شروع کی تھی کہ “ان کا اصل وطن فلسطین ہے اور اس وطن کی راہ میں اصل رکاوٹ عرب ہوں گے”۔
واضح رہے کی تین روز تک جاری رہنے والے اس سیمینار میں مصر اور عرب ممالک کے تیس سے زائد ماہرین اور مختلف ادباء نے شرکت کی۔ شرکاء نے سیمینار میں یہودی ادب اور صہیونیوں کے مقاصد کے حوالے سے اپنے مقالے پیش کیے۔