عرب لیگ کے جنرل سیکرٹری عمرو موسی نے کہا ہے کہ عربوں کے ہمسایہ ممالک کی مجوزہ انجمن میں ایرانی شمولیت سے متعلق چند عرب ملکوں کے تحفظات کی وجہ دراصل تہران کی ہنگامی نوعیت کی پالیسیوں کی عدم وضاحت ہے۔
عمرو موسی نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی عالمی امن پر اثر انداز ہونے والی سیاسی پالسیوں میں عراق کے اندر شیعہ، سنی مسئلے سے پیدا ہونے والے مسائل، متحدہ عرب امارات کے جزائر پر تہران کا قبضہ، حوثیوں کا مسئلہ اور تہران کے بحرین کے بارے میں ارادے ایسے امور ہیں کہ جن کی وجہ سے بعض عرب ممالک ایران کو اس مجوزہ ‘ہمسایہ لیگ’ میں شامل کرنے کے بارے میں متردد ہیں۔”ہمسایہ لیگ” کی تشکیل کے بارے میں تجویز لیبیا کے شہر سرت میں ہونے والے حالیہ عرب سربراہی اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔
عمرو موسی کا مزید کہنا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے بھی عرب ملک بعض تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ دوسروں کے بجائے عربوں کو اس پروگرام سے متعلق زیادہ تشویش ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایران سے مذاکرات ہونے چاہیں۔
عمرو موسی نے مزید بتایا کہ وہ اس سال کے آخر میں عرب لیگ کے غیر معمولی اجلاس کے موقع پر عربوں کے ہمسایہ ملکوں پر مشتمل ‘ہمسایہ لیگ’ کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کریں گے۔ اس انجمن کی تجویز لیبیا میں ہونے والے عرب سربراہی اجلاس کے موقع پر پیش کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب اور مصر نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔
اسرائیل کے لئے کوئی جگہ نہیں
عمرو موسی نے بتایا کہ ترکی اپنی قابل قبول اور لچکدار پالسیوں کی وجہ سے پہلا ملک ہے جس نے مجوزہ انجمن کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ انقرہ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ‘ہمسایہ لیگ’ کے معاشی سطح پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور اس سے آٹھ سو ملین افراد مستفید ہو سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس مجوزہ تنظیم میں اسرائیل کی شرکت کا اس وقت تک کوئی امکان نہیں جب تک وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے عرب امن عمل پر عملدرآمد نہیں کرتا۔ عمرو موسی نے کہا کہ اسرائیل نے ابتک امن مذاکرات کے لئے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا بلکہ اس کے بجائے وہ اپنی اشتعال انگیز کارروائیوں کے ذریعے بین الاقوامی قوانین کو چیلنج کر رہا ہے۔