رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اعلی حکام اور علمی و سیاسی شخصیات سے خطاب میں ملک کے بنیادی اور ذیلی امور کی درجہ بندی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ حکام کو مختلف شعبوں میں نظام کے بنیادی اہداف کے حصول اور عوام کی خدمت پر اپنی توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے شعبہ ہائے حیات سے دین کو باہر نکالنے اور غیر اخلاقی امور کی ترویج کی مغرب کی وسیع کوششوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مغرب میں ان کوششوں کا نتیجہ گھرانوں کے انتشار اور معاشرے کے افراد کی ایک دوسرے سے دوری و اجنبیت کی شکل میں برآمد ہوا ہے لیکن ان افکار کی فرومایگی ثابت ہو جانے کے بعد لوگ دین کی جانب لوٹ رہے ہیں اور اس غیر معمولی اقدام کی بناپراسلام سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے دین اسلام کو دنیا میں روحانی کہکشاں کا سب سے روشن و تابناک نقطہ قرار دیا اور فرمایا کہ اسلام سے دشمنی کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اسلامی نظام سے دشمنی کی سب سے بڑی وجہ ایرانی عوام کاجذبہ ایمانی ہے کیونکہ جذبہ ایمانی ہی لوگوں کو میدان میں لاتا ہے اور خطرناک اور دشوار گزار راستے کے پیچ و خم میں لوگوں کی ہدایت کرتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فلسطین کے حالیہ واقعات اور غزہ پٹی نیز غرب اردن میں ہونے والے مظالم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی ورثوں کی اسلامی شناخت کو ختم کرنا، حرم ابراہیمی میں ہونے والے واقعات اور مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنا، ایک بہت ہی خطرناک سازش ہے جو سب کی نظروں کے سامنے ہے تاہم عالم اسلام غیر ضروری مسائل میں الجھا ہوا ہے – رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ ضروری ہے کہ اسلامی کانفرنس تنظیم جو بنیادی طور پر فلسطین کی حمایت کے لیے تشکیل پائي ہے، فلسطین کے دفاع اور عالم اسلام کو صیہونیوں کی موذیانہ کارروائيوں سے مقابلے کے لیے عام لام بندی کی خاطر اپنے بنیادی فریضے پر عمل کرے ۔آپ نے صہیونیوں کی تسلط پسندی اور ان کی مذموم سازشوں سے مقابلے کے لیے عالم اسلام کی صلاحیتوں اور وسائل کو بہت وسیع قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالم اسلام کی استعداد اور صلاحیتیں صرف تیل تک محدود نہیں ہے بلکہ سب سے بڑی صارف منڈی اور دنیا کی اہم ترین گذرگاہیں جنہیں دنیا کی رگ حیات کہا جا سکتا ہے، مسلمانوں کے پاس ہیں اور اسی علاقے کی بدولت مغرب کی ساکھ بنی ہوئی ہے۔آپ نے اس سلسلے میں فرمایا کہ عالم اسلام ان وسائل سے استفادہ کیۓ بغیر بھی اور صرف دنیا میں منطقی اور سفارتکاری کے ذریعے حکومتوں اور اقوام سے صرف اپیل کرکے بھی کہ جو عالمی تغیرات کا سب سے اہم حصہ ہیں، اپنے برحق مطالبوں کو عملی جامہ پہنا سکتا ہے –