اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے خبردار کیا ہے کہ مغربی کنارے میں سلام فیاض کی غیرآئینی حکومت کے قیام اورعلاقے میں عباس ملیشیا کے تسلط قائم ہونے کے بعد وہاں کی اہم جامعات شدید ترین مغرب زدگی کا شکار ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے درسگاہوں میں اسلامی ذہن اورسوچ کے حامل افراد کو نکال کر ان کی جگہ اخلاقیات سے عاری، فحاشی اور عریانی کے علمبردار صہیونی اور امریکی اساتذہ کو تعینات کر رکھا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے بھاری معاوضوں پر تعینات مغربی ایجنٹ جہاں فلسطینی نوخیز نسل کو مزاحمت سے نفرت کی تعلیم دیتے ہیں، وہیں مغربی تعلیم سے آراستہ کرتے ہوئے انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی دور کر رہے ہیں۔
حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں قائم مختلف جامعات کی طلبہ یونینز میں اسلامی عناصر کو نکالنے اور مغربیت کے پیروکاروں کا غلبہ ثابت کرنے لیے طلبہ کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے، اور لڑائی کے واقعات کے بعد امریکی اور صہیونی سازشوں کی مزاحمت کرنے والے طلبہ اور عملے کو یونیورسٹیوں سے نکال دیا جاتا ہے۔
بیان میں حال ہی میں”النجاح نیشنل یونیورسٹی” میں طلبہ کے درمیان ہونے والے تصادم کے ایک واقعے کو بطور مثال پیش کیاگیا ہے۔ تصادم کے اس واقعے میں فاسطینی اتھارٹی اور فتح کے حمایت یافتہ”الشبا” گروپ نے نہ صرف اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے طلبہ ونگ سے وابستہ طلبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کی قیمتی چیزوں کی توڑ پھوڑ کی بلکہ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے مزید ظالمانہ فیصلہ کرتے ہوئے حماس کے طلبہ ونگ کی سرگرمیوں پرپابندی عائد کرتے ہوئے طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دیا۔
بعد ازاں عباس ملیشیا نے یونیورسٹی کے نکالے گئے طلبہ کے گھروں پر چھاپہ مار کر نہیں گرفتار کیا گیا اور ان کے اہل خانہ کو بدترین تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ بیان میں مغربی کنارےکی جامعات میں غیر مسلم اساتذہ بالخصوص امریکی اور یہودی اساتذہ کی تقرری پر شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ درسگاہوں میں یہودیوں اور امریکیوں کو مداخلت کا موقع دے کر فلسطینی اتھارٹی کی اسلام دشمنی بے نقاب ہوگئی ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے امریکا اور اسرائیل سے تعلق رکھنے والے ایسے درجنوں اساتذہ کو تعینات کیا ہے، جن کا مقصد صرف اورصرف فلسطینی بچوں کے اعمال اور اخلاق کو تباہ کرناہے۔
حماس نے یونیورسٹیوں کے سربراہان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اس امر کویقینی بنائیں کہ ان کے زیرکنٹرول تعلیمی اداروں میں اخلاق باختہ یہودی عملے اور امریکیوں کو طلبہ کے عقائد اور اخلاق بگاڑنےکا موقع نہ دیا جائے۔