غزہ میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کی سربراہی میں قائم اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی حکومت نے عالمی برداری اور مسلمان ممالک پر زور دیا ہےکہ وہ اسرائیل کو مزید جنگی جرائم کے ارتکاب سے روکنے کے لیے اس کے خلاف اب تک کی جنگی جرائم کی تحقیقات کا باقاعدہ آغاز کریں۔
حکومت کے ہفتہ وار اجلاس کے بعد منگل کے روز جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل کے بارے میں لچک دار پالیسی بنانے کے بجائے دشمن صہیونی ریاست کے جنگی جرائم کو مد نظررکھ کر فیصلے کریں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کے رکن رچرڈ گولڈ اسٹون نے اسرائیل کے جنگی جرائم کوموثر انداز میں دنیا کے سامنے پیش کر کے انسانیت کی خدمت کی ہے، اب عالمی برداری اور مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم کا حساب لینے کے لیے عملی کارروائی شروع کریں۔
حکومت نے خبردار کیا کہ اسرائیل کی پیشیبانی کرنے والے بعض مغربی ممالک اور فلسطین میں فتح اسرائیل کو گولڈ اسٹون رپورٹ کے مطابق قانونی کارروائی سے بچانے کے لیے کوشاں ہیں، فلسطین کے اندر کسی سیاسی قوت کا یہ رویہ قوم دشمنی پر مبنی ہے۔
حکومت نے گذشتہ جمعہ کوغزہ کے شہر خان یونس میں مجاہدین کی جوابی کارروائی میں تین صہیونی فوجیوں کی ہلاکت کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ مجاہدین کی اس کارروائی سے اسرائیل کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ مجاہدین کی یہ جرات مندانہ کارروائی صہیونی حکومت اور بنجمن نیتن یاھو کے ان دھمکیوں کا جواب ہے جو وہ غزہ پرمسلسل فوج کشی کے بارے میں دے رہے ہیں۔
حال ہی میں لیبیا میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے فلسطینی حکومت نے کہا کہ یہ کانفرنس موثر فیصلے کرنے میں ناکام رہی ہے، غزہ کی معاشی ناکہ بندی کی صرف مذمت کی گئی لیکن اس کے اٹھائے جانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب لیگ کی جانب سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھانے، بیت المقدس میں یہودی آباد کاری روکنے اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے عرب لیگ اپنی پالیسی پر نظرثانی کریں۔
فلسطینی حکومت نے فلسطینی اتھارٹی اور فتح کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جاری غیر قانونی اور ظالمانہ اقدامات روکنے کا مطالبہ کیا۔ بیان میں فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے بنکوں میں رقوم کی منتقلی روکنے کے فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے غزہ کی معاشی ناکہ بندی میں اسرائیل کی معاونت قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ غزہ میں اسرائیل کی معاشی ناکہ بندی میں فتح کا بھی ہاتھ ہے، جس پروہ قوم سے معافی مانگے اور ان تمام اقدامات سے گریز کرے جو فلسطینی عوام کی مشکلات میں اضافے کا باعث رہے ہوں۔