اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے ہفتے اور اتوار کو لیبیا میں ہونے والی عرب سربراہ کانفرنس کے اختتام پر اجلاس کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب لیگ کا اجلاس فلسطینی عوام اور عرب قوم کی امنگوں کے مطابق نتائج مرتب نہیں کر سکا۔
دو روز تک جاری رہنے والے اس اجلاس میں فلسطین میں بالخصوص مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی آباد کاری اورغزہ کی معاشی ناکہ بندی کی صرف مذمت کی گئی ، جبکہ صہیونی جرائم کے انسداد کے لیے کوئی متفقہ لآئحہ عمل طے نہیں کیا گیا۔
اتوار کی شام غزہ میں حماس کے میڈیا سینٹر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ عرب سربراہ اجلاس میں اسرائیل سے مذاکرات کو بطور اسٹریٹیجی کے اختیار کرنا اوراس کے متبادل دیگر ذرائع خصوص مزاحمت کو ترک کرکے اسرائیل کو جارحیت جاری رکھنے کا موقع دیا ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہودی آباد کاری روکنے کی شرط پراسرائیل سے مذکرات کی بحالی کی بات چیت ایک ایسا تجربہ ہے جوماضی میں کئی بار دہرایاجا چکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں غیر قانونی یہودی آباد کاری جاری رکھنے کی سے متعلق عرب لیگ کو آگاہ کردیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل عرب لیگ کی طرف سے مذاکرات کے بحالی کے بدلے یہودی آباد کاری روکنے پرتیار نہیں۔
بیان میں حماس نے عرب لیگ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطین کے بارے میں نئی سیاسی حکمت عملی مرتب کریں جو فلسطین میں مسلح مزاحمت کی حمایت پر مبنی ہو۔
حماس نے عرب لیگ کےاجلاس میں غزہ کی معاشی ناکہ بندی اٹھائے جانے سے متعلق صرف اسرائیل سے مطالبات کرنے پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عرب سربراہ خود اس امر کا فیصلہ کریں کہ آیا ان کی بیان بازی سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی ختم ہوگی یا اس کے لیے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
بیان میں کہا گیا ہےکہ فلسطینی عوام بالخصوص محصورین غزہ معاشی ناکہ بندی فوری طور پراٹھانے کے لیے عملی اقدامات کی آس لگائے بیٹھے تھے تاہم عرب سربراہ اجلاس نے صرف بیان بازی تک خود کو محدود رکھ کے فلسطینی عوام کو مایوس کیا۔ حماس نے کہا کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کی مذمت اور اسرائیل کو اس کا ذمہ دار قرار دینے سے نہ توغزہ کے بند راستے کھولے جاسکتے ہیں اور نہ ڈیڑھ ملین فلسطینیوں کا عرب دنیا سے رابط بحال کیا جا سکتا ہے۔