اردن میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے حلقوں نے ذرائع اطلاعات کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ اردن کی حکومت حماس سے مستقبل میں تعلق کی مستقل پالیسی مرتب کرنے کے مختلف” آپشنز” پر کام کر رہی ہے جن میں حماس کے بارے میں سخت پالیسی بنائے جانے کا امکان ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق اردنی حکومت نے حال ہی میں فلسطینی شہریوں بالخصوص غزہ کے محصورین کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے والے 18 افراد کو گرفتار کیا ہے جبکہ گرفتاریوں کا یہ سلسلہ ان فلسطینی کالم نگاروں اور میڈیا کے نامہ نگاروں تک وسیع ہوسکتا ہے جوحکومت سے حماس کے بارے میں نرم پالیسی بنانے اور تنظیم سے تعلقات کو مستحکم کرنے پرزور دیتے آ رہے ہیں۔ ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اردن کی نئی پالیسی صرف حماس کے بارے میں تعلق کی نوعیت کی نہیں بلکہ ملک کی مسئلہ فلسطین کے بارے میں آئندہ کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ ماضی میں اردنی حکومت حماس سے تعلق کے بارے میں”تذبذب” کا شکار رہی ہے۔ کبھی حماس کے بارے میں محتاط انداز اختیار کیا گیا، کبھی حماس سے قربت اور کبھی فاصلے بڑھانے کی پالیسی روا رکھی گئی، تاہم اب اردن اس صورت حال سے نکل کر حماس کے بارے میں سخت پالیسی بنانے پرغور کر رہا ہے۔ اردن میں فلسطینیوں کے لیے فنڈ ریزنگ کرنے والے شہریوں اور صحافیوں کی گرفتاریاں حکومت کی اسی سوچ اور پالیسی کا حصہ ہیں۔ ذرائع کےمطابق اردن کی طرف سے حماس کے بارے میں سخت پالیسی مرتب کرنے کا فیصلہ دراصل عرب ممالک کے”اعتدال پسندی” کے اس دائرے میں شامل ہونے کا عمل ہے، جس میں حماس کے بجائے فلسطینی صدر محمود عباس اور ان کی جماعت فتح کے ساتھ روابط کو ترجیح دی گئی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکام نےٓحماس کے بارے میں نرم پالیسی پر زور دینے والے صحافیوں کو طلب کیا، ان کی پیشی کے موقع پر حکومت کی جانب سے انہیں حماس کے بارے میں نرم موقف رکھنے پر نہ صرف “سرزنش” کی جائے گی بلکہ ان پریہ موقف ترک کرنے پر سخت دباؤ ڈالا جائے گا۔