مسجد اقصیٰ کی تاریخی دستاویزات شعبے کے نگران ڈاکٹر ناجح بکیرات نے انکشاف کیا ہے کہ نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی حکومت مسجد اقصیٰ کے تاریخی مقام”مروانی مصلیٰ” کو بھی الخلیل میں حرم ابراھیمی اور بیت لحم میں مسجد بلال بن رباح کی طرح یہودیوں کا تاریخی ورثہ قراردینے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ پیرکے روز ایک مصری اخبار”الدستور” کو انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے مصلیٰ مروانی کو یہودی آثار قدیمہ کا حصہ بنانے کے لیے پہلے سے بڑھ کرسازشیں کر رہا ہے۔ صہیونی حکومت کی جانب سے یہودیوں کو مصلیٰ مروانی میں کھلے عام داخل ہونے کی اجازت فراہم کی جاتی ہے جبکہ فلسطینی شہریوں کو نماز کے لیے اس مقدس مقام تک نہیں جانے دیا جاتا۔ نمازوں کے اوقات میں بڑی تعداد میں فوج اور پولیس اہلکار مصلیٰ مروانے کے قریب اور اہم دروازوں پرتعینات کیے جاتے ہیں۔ بکیرات نے مزید کہا کہ قابض اسرائیل نے 2000 سے 20005ء کے دوران اس طرح کی خبریں نشر کرنا شروع کر دی تھیں جن میں مصلیٰ مروانی کے گرائے جانے کی افواہیں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ مصلیٰ مروانی کویہودیوں کا تاریخی ورثہ قرار دینےکے لیے نمازیوں کے وہاں داخلے اور عام زائرین کی آمد پرپابندی لگائی جارہی تھی۔ بکیرات نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس میں کی جانے والی کھدائیوں سے صرف سلوان اور شیخ جراح میں تاریخی مقامات ہی متاثر نہیں ہو رہے بلکہ ان اسے براہ راست مسجد اقصیٰ کو خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس کو یہودیانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں بکیرات نے کہا کہ اسرائیل بیت المقدس میں یہودی آبادی کو بڑھانے کے لیے یومیہ تین لاکھ اسی ہزار ڈالر کی خطیر رقوم پھونک رہا ہے۔ جبکہ اس کے مقابلے میں عرب ممالک کی جانب سے اسے روکنے یا فلسطینیوں کی آبادی بڑھانے پر دس ہزار ڈٓالر بھی خرچ نہیں کیے جاتے۔ انہوںنے خبردار کیا کہ قابض اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کا سلسلہ بدستور جاری رہا تو یہودی جلد اس شہر پر اپنا آبادیاتی تسلط قائم کر لیں گے۔