فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے فلسطینی اتھارٹی کے غیر قانونی سربراہ محمود عباس کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی خواہش کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مذاکرات کے ذریعے اسرائیل کو جرائم پر پردہ ڈالنے کا موقع فراہم کیا جائے گا۔ بدھ کے روز غزہ میں مجلس قانون ساز کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت اسرائیل کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ طورپر اس وقت تک مذاکرات کی مخالفت جاری رکھے گی جب تک اسرائیل فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ روکتے ہوئے مسجد اقصیٰ پر تسلط ختم کرنے اور جارحانہ پالیسی ترک کرنے کا اعلان نہیں کر دیتا۔ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی جانب سے فلسطین میں اسلامی مقدسات کو یہودی ورثہ قرار دینے پر تمام عرب ممالک اور عالم اسلام کو حرکت میں آنا چاہیے کیونکہ فلسطین میں موجود مقدسات صرف فلسطینیوں کے نہیں بلکہ عرب ممالک اور پورے عالم اسلام کے ہیں۔ انہوں نےمزید کہا کہ موجودہ حالات میں تمام عرب ممالک کے وزراء خارجہ قاہرہ میں جمع ہوں اور اسرائیلی اعلان کے مقابلے میں ٹھوس اور یکساں پالیسی اختیار کریں تاکہ صہیونی جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے مقدسات اسلامی کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ فلسطینی وزیراعظم نے کہا کہ “یہ بات افسوس کے ساتھ کہنا پڑتی ہے کہ اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے خلاف جاری سازشوں کے مقابلے میں عرب ممالک نے کچھ نہیں کیا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی حکومت فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا ہر سطح پر مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور مسجد اقصیٰ، مسجد ابراھیمی اور مسجد بلال بن رباح سمیت تمام مقدس مقامات کے تحفظ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ اسماعیل ھنیہ نے عرب لیگ سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل سے مذاکرات کی حمایت کے بجائے فلسطین میں مقدس مقامات کی بے حرمتی کا نوٹس لے۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے عرب ممالک کو ایک موقف اختیار کرتے ہوئے ایک فنڈ کے قیام کا اعلان کرنا چاہیے تا کہ صہیونی سازشوں کے سامنے بند باندھا جا سکے۔ انہوں نے فلسطینی عوام سے اپیل کی کہ وہ فلسطین میں مقدس مقامات کی حفاظت ، مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کے خلاف جمعہ کے روزحماس کے یوم الغضب کے موقع پر جلسے اور جلوسوں میں شرکت کریں اور اسرائیل اور اس کے حامیوں کو یہ پیغام دیں کہ فلسطینی اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے زندہ ہیں اور کسی طاقت کو مقدسات اسلامیہ کو یہودی ورثہ قرار دینے کی اجازت نہیں دی جائٓے گی۔