بدھ کے روز قاہرہ میں عرب لیگ کے منعقدہ اجلاس میں فلسطینی صدرمحمود اسرائیل سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے حمایت حاصل نہیں کر سکے۔ عرب وزراءخارجہ کے اجلاس کے اختتام پر جب عرب لیگ کے سیکرٹری عمرو موسیٰ حتمی بیان جاری کر رہے تھے شام کے وزیرخارجہ نے اجلاس کو یہ کہہ کر اس وقت حیران کر دیا کہ اجلاس کی طرف سے محمود عباس کو اسرائیل سے مذاکرات کے لیے عرب ممالک کی مطلوبہ حمایت حاصل نہیں ہو سکی، چنانچہ مذاکرات کےنتائج کی تمام ترذمہ داری فلسطینی صدر محمود عباس پرعائد ہو گی۔ اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی حمایت یا مخالفت پرغور کیا گیا، اجلاس میں بیشتر عرب ممالک کے وزراء خارجہ نے اسرائیل سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر مذاکرات شروع کرنے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ شامی وزیرخارجہ ولید المعلم نے کہا کہ عمرموسیٰ کی جانب سے اجلاس کے حتمی اعلامیے پر تمام عرب ممالک کا اتفاق نہیں، اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی چار ماہ کے لیے اسرائیل سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر مذاکرات کر سکتی ہے، ایک متنازعہ نقطہ ہے، عرب ممالک کے اجماع کے خلاف فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے مذاکرات کیے توان کے نتائج کی ذمہ داری بھی فلسطینی اتھارٹی پرعائد ہو گی۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عمرموسیٰ نے اپنے پہلے روز کی تقریر میں اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل سے موجودہ حالات میں مذاکرات سود مند ثابت نہیں ہو سکتے کیونکہ اسرائیل فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی مقدسات کو مسلسل اپنی جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہے، تاہم اس موقع پر مصری وزیرخارجہ نے اسرائیل سے فلسطینی اتھارٹی کے مذاکرات شروع کیے جانے پر زور دیا۔ دوسری جانب عرب ذرائع ابلاغ نے بھی عرب لیگ کے دو روزہ اجلاس کو فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل سے مذاکرات کی اجازت دینے کے حوالے سے مایوس کن قرار دیا ہے۔ عرب میڈیا کے مطابق عرب وزراخارجہ اجلاس میں فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل سے مذاکرات کے لیے”کلین چٹ” نہیں دی جا سکی اوربیشتر ممالک کے مذاکرات پراپنےشدید تحفظات کا اظہار کیا ہے