ادھر اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے ترجمان ڈاکٹر سامی ابو زھری نے اسرائیل اور رام اللہ اتھارٹی کے درمیان مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کو قومی جرم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اعلان دراصل محمود عباس اینڈ پارٹی کے سیاسی دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کو دیئے گئے خصوصی بیان میں سامی ابو زھری نے کہا کہ امریکی منصوبے کے تحت محمود عباس عربوں کی جانب سے امن مذاکرات کی اجازت کو اپنے لئے ایک نعمت تصور نہ کریں کیونکہ جب عرب ملکوں کے خود اسرائیل سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم ہیں، ان کی جانب سے کسی ایسی اجازت کی کوئی اہمیت نہیں۔ حماس کے ترجمان نے محمود عباس اور ان کے ہم خیال دوسرے ساتھیوں سے کہا کہ وہ فلسطینیوں سے مذاق کرنا بند کریں اور انہیں مزید جہنم میں دھکیلنے سے باز رہیں۔ انہوں نے کہا کہ قابض اسرائیلیوں سے مذاکرات کا نتیجہ ناکامی کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا۔ ڈاکٹر ابو زھری کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے بجائے محمود عباس کو فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق عرب حمایت سے مزاحمت اور ثابت قدمی کے قومی موقف پر زور دینا چاہئے۔ یاد رہے کہ فتح کے اعلی مذاکرات کار صائب عریقات نے قاہرہ میں ہونے والے عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد اعلان کیا کہ عرب ملکوں کو امریکی پلان کے مطابق فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان مذاکرات پر کوئی اعتراض نہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مذاکرات کی اہمیت سے مسلسل اسرائیل انکار اور یہودی بستیوں کی تعمیر رکوائے بغیر مذاکرات کی طرف لوٹنا اپنے ہی موقف سے روگردانی کے مترادف ہے۔