فلسطینی مجلس قانون ساز کے اسلام پسند ارکان نے عباس ملیشیا کے ہاتھوں صہیونی جیل میں قید فلسطینی حریت پسند احمد نبھان کی اہلیہ “ام بصیر” کے اغوا کی شدید مذمت کی ہے۔ ام بصیر کو نابلس کے مشرقی مہاجر کیمپ عسکر میں واقع ان کے گھر سے عباس ملیشیا کے مسلح گماشتوں نے اغوا کیا۔ اسلام پسند پارلیمنٹرینز نے اتوار کے روز ایک بیان میں اغوا کی اس کارروائی کو خطرناک جرم سے تعبیر کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کارروائی کر کے عباس ملیشیا نے تمام حدود پار کر دی ہیں۔ پارلیمنٹرینز نے بیان میں مزید کہا ہے کہ خواتین کے اس طرح گرفتار ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ دن دیہاڑے اغوا کی یہ کارروائی عباس اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کے کارناموں کی سیاہ تاریخ میں جدید دور کے نکبہ کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔ اب ان کے ظلم سے خواتین اور بچے بھی محفوظ نہیں رہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ ارکان مجلس قانون ساز نے یہ بات زور دیکر کہی کہ اسیروں کے خاندانوں کی دیکھ بھال فلسطینی انتظامیہ کی ذمہ داری ہے۔ انہیں اسیران کے اہل خانہ کو ہراساں کرنا اور انہیں یوں گرفتار کر کے لے جانا قطعا زیب نہیں دیتا۔ بیان کے مطابق اسیر احمد صقر اپنی عمر عزیز کے تیرہ سال اسرائیلی زندانوں میں گذار چکا ہے۔ ایسے لوگوں کے اہل خانہ طوق و سلاسل کے نہیں بلکہ عزت و تکریم کے حقدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ام بصیر اور ان کا خاندان اپنے سربراہ اور شوہر کی طویل گرفتاری کی وجہ سے اسرائیلی مظالم سہہ رہا ہے۔ اسیر کے بیٹے کو اسرائیلی فوجی پہلے ہی سر میں گولی مار کر زخمی کر چکے ہیں۔ آج فلسطینی اتھارٹی کی بے لگام ملیشیا نے پانچ بچوں کی ماں کو بھی پس زنداں دھکیل کر پورے خاندان کو ناقابل بیان کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ نے کہا کہ نہ تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی آخری تاہم انہوں نے ام بصیر کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہ انہیں کسی بھی قسم کا گزند پہنچا تو اس کی ذمہ داری عباس ملیشیا پر ہو گی۔