’’عوامی کمیٹی برائے انسداد ناکہ بندی غزہ‘‘ جمال الخضری نے غزہ کی اقتصادی حالت کو انتہائی دگرگوں قرار دیا ہے- انہوں نے غزہ میں فیکٹری مالکان سے ایک ملاقات کے دوران کہاکہ غزہ کی اقتصادی صورت حال کمزوری کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اب انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں داخل ہوچکی ہے – غزہ کی ناکہ بندی کے باعث 90فیصد فیکٹریاں چار سال سے بند پڑی ہیں جبکہ تجارتی مراکز بھی بند ہیں- غزہ میں صنعت کے لیے مطلوبہ خام مال داخل نہیں ہونے دیاجاتا- جمال الخضری نے ذکر کیا کہ درآمد و برآمد مکمل طو رپر بند ہے – غزہ میں 1999ء میں کام شروع کرنے والا صنعتی علاقہ مکمل طور پر بند ہے اور اس پر اسرائیل کا قبضہ ہے جبکہ فلسطینی تاجروں کے تجارتی سامان کے تقریباً ایک ہزار ٹینکرز اسرائیلی بندرگاہوں پر رکے ہوئے ہیں – فلسطینی تاجر بندرگاہ کے ٹیکس اور دیگر واجبات دینے پر مجبور ہیں فیکٹریاں اور تجارتی مراکز بند ہونے کی وجہ سے ایک لاکھ چالیس ہزار مزدور بے روز گار ہیں- بے روز گار ی کا تناسب بڑھ کر 65فیصد ہوگیا – دس لاکھ فلسطینی امداد پر گزر بسر کررہے ہیں