انسانی حقوق کی عالمی تنظیم “ھیومن رائٹس واچ” نے انکشاف کیا ہے کہ اردن اپنے ہاں پناہ گزین دو لاکھ فلسطینیوں کی شہریت ختم کرنے کے منصوبے پر غور کر رہا ہے، جلد ہی اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کرلیا جائے گا۔ یہ فلسطینی دوسری خلیج جنگ کے دوران کویت سے ھجرت کر کے اردن میں میقم ہوئے تھے۔ پیر کے روز عمان میں تنظیم کے علاقائی دفتر سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اردن کی حکومتیں 1988ء کے بعد سے ہی فلسطینیوں کی شہریت ختم کرنے سے متعلق غور کرتی آئی ہے تاہم حالیہ چند برسوں کے دوران حکومت کے اندر اس پر عمل درآمد کے مطالبات میں اضافہ ہوا۔ خود اردن جس کی آدھی سے زائد آبادی فلسطینی باشندوں پر مشتمل ہے بہت حد تک فلسطینی شہریوں پر انحصار کرتا ہے۔ اردن میں ساڑھے چھ ملین سے زائد افراد کا تعلق کسی نہ کسی طور پر فلسطین سے جاملتا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اردن یہ اقدام اس لیے کر رہا ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ اس طرح وہ مغربی کنارے اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر شہروں میں اپنے ان شہریوں کی واپسی کا راستہ ہموار کرے جنہیں 1948ء میں قیام اسرائیل اور 1967ء کی جنگوں میں اپنے علاقوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 2004ء سے 2008 تک اردن میں مقیم 2700 فلسطینیوں کو ان کی شہریت سے محروم کیاگیا۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظٰیم نے اردن کے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی شہریوں کی شہریت ختم کرنے کا اقدام خود اردن کے 1954ء کے فلسطینیوں سے متعلق اس قانون کی خلاف ورزی ہے جس میں انہیں اردن کی شہریت کا حق دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے خبردارکیا ہے کہ فلسطینیوں کی شہریت کے خاتمے کے اردن میں موجود تمام فلسطینیوں کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، شہریت سےمحروم ہو جانے والے افراد کے بچے بھی اردنی تعلیمی اداروں میں تعلیم کے حصول سے بھی محروم ہو جائیں گے، اس کے علاوہ ان سے صحت تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیتں بھی سلب کر لی جائیں گی۔