فلسطینی قانون ساز مجلس کے ممبر ڈاکٹر عزیز دویک نے جمعہ کے روز اپنے ایک بیان میں اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایک قومی مفاہمتی پالیسی کی تجدید نو کے خواہاں ہیں جو بیرونی مداخلت و اثر رسوخ سے پاک ہو۔ فلسطینی رہنما نے کہا کہ حماس کی انتخابی اور پارلیمانی سیاست نے مسئلہ فلسطین کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ قانون ساز مجلس کو بہتر طریقے پر کام کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ قانون ساز مجلس کے44 ارکان کو اسرائیلی قابض فوجیوں نے اغوا کیا۔ ان ممبران کی اکثریت حماس سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری طرف رملہ کی عباس انظامیہ نے بھی اس منتخب ادارے کو کام میں تعاون دینے سے انکار کیا۔ ڈاکٹر عزیز دویک نے کہا کہ اس فلسطینی قانون ساز مجلس کو نئے انتخابات تک مذید وقت دینا ایک آئینی راستہ ہے اور یہ قدم غیر جمہوری نہیں ہے۔ ڈاکٹر عزیز نے انکشاف کیا کہ وہ فلسطینی قانوں ساز ادارے کیلئے چند اہم ترجیحات کو بنیاد بنا کر کے اسکی تشکیل نو کیلئے کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عزیز نے زور دیکر کہا کہ اس نظام ک پٹڑی سے اتارنے کو بچانے میں ہمیں ایک کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجلس قانون سازاس کیلئے ایک منتخب صدر کیلئے صدارتی آفس کا قیام اور ایک قومی مفاہمتی پالیسی اپنانے کیلئے لائحہ عمل ترتیب دینے کی کوششوں میں سرگرم عمل رہیگی اور اس سلسلسے میں کسی بھی صورت میں باہر کی مداخلت کو برداشت نہیں کیا جائیگا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کا پارلیمانی تجربہ منفرد اور اس لحاظ سے کافی سود مند رہا ہے کہ پوری دنیا میں مسئلہ فلسطین بڑی شدو مد سے اجاگرہوا۔ ڈاکٹرعزیز دویک نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ وہ فلسطینی مجلس قانون ساز کا اجلاس بھی ایک مخصوص ایجنڈے پر غور کرنے کیلئے بلا سکتے ہیں اگر ممبران کی ایک چوتھائی اجلاس بلانے کی درخواست دیدے۔