مغربی کنارے میں سرگرم فلسطینی صدر محمود عباس کے زیر کمانڈ سیکیورٹی فورسز اور اسرائیلی فوج کے باہمی اشتراک سے حماس کے یوم تاسیس کی تقریبات روکنے اور گرفتاریوں کی مشترکہ مہمات کا انکشاف ہوا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق انٹرنیٹ کے ذریعے معلومات حاصل کرنے والوں نے نہایت مہارت کے ساتھ عباس ملیشیا کی ایسی معلومات حاصل کی ہیں جن میں ملیشیا اور اسرائیلی فوج کے باہمی اشتراک سے گرفتاریوں کی منصوبہ بندی کی مکمل دستاویزات موجود ہیں۔ عباس ملیشیا کے زیراستعمال ایک اہم کمپیوٹرلیپ ٹاپ سے حاصل کردہ معلومات سے یہ بھی انکشاف ہواہے کہ حال ہی میں حماس کی جانب سے مغربی کنارے میں یوم تاسیس ک تقریبات کے انعقاد کو ناکام بنانے کے لیے صہیونی فوج اورعباس ملیشیا کے درمیان باہمی تعاون کا ایک منصوبہ تیارکیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت حماس کے اراکین کی گرفتاریوں کے لیے مشترکہ چھاپہ مار ٹیموں کی تشکیل، گرفتاریوں اور جلسے جلوسوں کو ناکام بنانے کے لیے انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور مطلوب افراد کی تلاش کے لیے مشترکہ کارروائیاں شامل تھیں۔ ذرائع کے مطابق انٹرنیٹ کے ماہرین کو اس سلسلے میں تین علیحدہ علیحدہ دستاویزات موصول ہوئی ہیں۔ ان میں پہلی دستاویز26 نومبر کوعباس ملیشیا اور اسرائیلی فوج کے درمیان ہونے والے اس معاہدے کی تفصیلات پر مشتمل ہے جس میں حماس کے یوم تاسیس کے پروگرامات کو رکوانے کے لیے متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس دستاویز میں یہ طے پایا کہ خفیہ تعاون کے اس معاہدے کو ہر قیمت پر افشا کرنے سے بچانا ہوگا کیونکہ یہ راز فاش ہونے اور میڈیا میں آنے کی صورت میں منصوبہ ناکام ہو سکتا ہے۔ اسی سلسلے کی ایک دوسری دستاویز میں کہا گیا ہے کہ عباس ملیشیا اورقابض فوج گرفتار ہونے والوں سے مشترکہ تحقیقات کریں گی اور تسیری دستاویز میں اس امرسے اتفاق کیا گیا ہے کہ حماس کےیوم تاسیس کی تقریبات کو ناکام بنانے کے لیے اہم راہنماؤں کی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ قیادت کو نظر بند کرنے کے لیے بھی مشترکہ کوششیں کی جائیں گی۔ دوسری جانب اس رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد حماس نے اپنے ردعمل میں فلسطینی اتھارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ نے فلسطینی اتھارٹی کے ان دعوؤں کے غلط ہونے پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے جن میں کہا گیا تھا کہ حکومت کی جانب سے حماس کے یوم تاسیس کی تقریبات پرکوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔