رپورٹ : صابر ابو مریم
مرکزی سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
اسلامی مزاحمت کے دارلحکومت بیروت میں علمائے اسلام اور مسئلہ فلسطین کے عنوان پر دو روزہ بین الاقوامی فلسطین کانفرنس کا انعقاد مورخہ 17اور 18مئی کو کیا گیا، بین الاقوامی کانفرنس میں دنیائے اسلام کے مایہ ناز علمائے کرام ، اسکالرز ، تحقیق دانوں سمیت تحریک آزادی فلسطین کے لئے سرگرم عمل افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی، کانفرنس کی صدارت القدس کے مفتی اعظم
محمد حسین نے کی، بین الاقوامی کانفرنس میں پاکستان سے جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابولخیر محمد ذبیر اور پاکستان عوامی تحریک کے مرکزی صدر ڈاکٹر رحیق عباسی سمیت فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل صابر ابو مریم نے شرکت کی، جبکہ اس موقع پر لبنان کے مفتی اعظم شیخ ماہر حمود، فلسطین سے آئے ہوئے علمائے کرام میں شیخ عبد اللہ کتمتو، شیخ اسماعیل زراع،مفتی شیخ رضوان فرھاد، مفتی اعظم عمان عبد اللہ بن سعید، ڈاکٹر محمد بن سیف، مفتی اعظم سوڈان جلال الدین ، جامعۃ الازہر مصر کے مفتیان کرام میں مفتی محمود ابراہیم عبدہ، مفتی اعظم کویت عبد العزیز قتان، جنان الایوبی،جامعہ شام سے ڈاکٹر عبیسہ ، تھائی لینڈ سے شیخ مقداد علی، اسکاٹ لینڈ سے شیخ ابو جعفر، شیخ ریحان رضا، ترکی سے شیخ محمد نعیم، جنوبی افریقا سے شیخ جواد ریاضیہ،بورکینا فاسو کے مفتی ڈاکٹر علیدو سانا، تاجکستان سے محی الدین کبیری، عراق سے شیخ عقیل محمود،تنزانیہ سے شیخ حمید جلالہ،یوگنڈا سے شیخ حسین محمد بووا، ملیشیا کے معروف مفتی اعظم حاجی احمد وانگ، مجلس علمائے فلسطین کے سربراہ شیخ ڈاکٹر محمود سلیم ، ارجنٹائین سے شیخ سہیل اسد، بحرین سے شیخ محمد الشہابی سمیت مفتی اعظم عراق اور ایران سے علماء کے وفد نے شرکت کی ۔٫
اس موقع پر اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے رہنما اور سابق وزیر اعطم فلسطین اسماعیل ہنیہ ، معروف فلسطینی مسیحی رہنما عطاء اللہ حنا اور جہاد اسلامی کے وفد نے ویڈیو لنک کے ذریعے کانفرنس کے شرکاء سے خطاب کیا۔
اس موقع پر مقامی این جی اوز اور تنظیموں کے سرکردہ رہنماؤں میں شیخ یوسف عباس، شیخ علی عبد اللہ، ڈاکٹر عبد المالک سکریہ، ڈاکٹر حیدر دقمام، داکٹر احمد ملی، شیخ الفتاح الایوبی، شیخ حسن عبد اللہ اور دیگر بھی شریک ہوئے۔
کانفرنس کا انعقاد عالمی کمیٹی برائے حقوق واپسی فلسطین (Global Campagin to Return to Palestine)کی جانب سے کیا گیا تھا۔
علمائے اسلام اور مسئلہ فلسطین کے حوالے سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پراسلامی جمہوریہ ایران کے مایہ ناز رہنما اور مشیر برائے سپریم لیڈر ایران آیت اللہ خامنہ ای جناب علی اکبر ولایتی سمیت اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حماس کے معروف رہنما علی البرکہ، حزب اللہ کے ڈاکٹر عطا ء اللہ حمود، حسن حدروج، جہاد اسلامی فلسطین کے رہنماؤں میں ابو عماد، اسماعیل ابو مجاہد، ڈاکٹر خالد ابو صالح سمیت دیگر نے شرکت کی۔
کانفرنس کا آغاز 16اور17مئی کی درمیانی شب کو ’’شب معراج النبی (ص)‘‘ کی مناسبت سے کیا گیا اس موقع پر محفل قرات و قصیدہ و نعت کا اہتمام کیا گیا جبکہ مفتی القدس سمیت مفتی اعظم لبنان اور دیگر رہنماؤں نے شب معراج النبی (ص) کی اہمیت اور اس کی برکات کے بارے میں سیر حاصل گفتگو کی۔
کانفرنس کا باقاعدہ آغاز 17مئی کی صبح کیا گیا جس میں کانفرنس میں شریک علمائے اسلام کو کانفرنس کے اغراض و مقاصد پر گفتگو کرنے کی دعوت دی گئی، کانفرنس کے پہلے دور کی صدارت مفتی اعظم القدس محمد حسین،جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد ذبیر، شیخ یوسف عباس، فلسطینی مفتی شیخ عبد اللہ کتمتو، ارجنٹائین کے شیخ سہیل اسد سمیت سوڈان کے مفتی اعظم نے کی۔پہلے اجلاس میں کانفرنس کے اہداف اور مقاصد پر گفتگو کی گئی اور کہا گیا کہ دور حاضر میں بڑھتی ہوئی اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو باہم متحد ہو کر دشمن کو ناکام بنانا ہوگا اور علمائے اسلام کا یہ فرض ہے کہ وہ امت کو مسئلہ فلسطین کے بارے میں ہر طور پر آگاہ کریں اور بتائیں کہ فلسطین کے مسئلہ کو مرکزیت حاصل ہے اور تمام تر مسائل کی جڑ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل ہے، اس موقع پر جمعیت علماء پاکستان کے سربراہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہتا ہے لہذٰا ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان متحد رہیں اور امریکی اور اسرائیلی سازشوں کا مقابلہ کریں اور مسئلہ فلسطین کو فراموش نہ ہونے دیں، انکاکہنا تھا کہ امریکہ اور اسرائیل کی کوشش ہے کہ فلسطین کی آزادی اور جد وجہد کے لئے اٹھنے والی تمام آوازوں کو دبا دیا جائے اور مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کیا جائے تاہم ہمیں ہر صورت مسئلہ فلسطین کے لئے اپنی جد وجہد ک واولین ترجیح میں جاری رکھنا ہو گا اور امت کو عالمی استعماری قوتوں کے ناپاک عزائم کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا۔کانفرنس کے پہلے اجلا س میں واضح طور پر کہاگیا کہ فلسطین کا مسئلہ کسی ایک قوم ، قبیلہ، رنگ و نسل ، یا مذہب ومسلک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمگیر انسانی مسئلہ ہے اور اسلام انسانیت کو نجات بخشنے والا مذہب ہے اور اسلام کا پیرو کار ہونے کے ناطے ہمیں تمام تر مسائل اور اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فلسطین کے مسئلہ کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے جد وجہد جاری رکھنی ہو گی،کانفرنس کے پہلے اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ علمائے اسلام کی اولین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی تقاریر ، خطبوں اور اپنی نجی محافل میں کی جانے والی گفتگو کے دوران مسئلہ فلسطین کے پہلوؤں کو اجاگر کریں، رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، اسی طرح اس مسئلہ کو صرف محدود بنیادوں پر نہیں بلکہ علمی مباحثوں کی صورت میںآشکار کریں، علمائے اسلام کے کردار پر بھرپور زور دیتے ہوئے کانفرنس کے اجلاس میں کہا گیا کہ علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلہ کی صحیح توجہیات عوام الناس تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کریں۔اجلاس میں کہا گیا کہ علمائے اسلام کو معاشرے میں عزت اور اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے تاہم ان کی بات کا اثر بھی زیادہ ہوتا ہے تاہم علمائے اسلام عوام کو مسئلہ فلسطین کے حوالے سے آگہی اور شعور فراہم کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔
کانفرنس کے دوسرے دور کے اجلاس میں مفتی اعظم القدس، مفتی اعظم اندونیشیا، مفتی اعظم لبنان کاکہنا تھا کہ فلسطین کا مسئلہ ہماری بنیادی اور مہم ترین ترجیحات کا حصہ ہونا چاہئیے ، انہوں نے کہا کہ آج دنیا میں رونما ہونے والے واقعات اور بالخصوص دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل براہ راست ان کے پشت پناہ ہیں اور ان دہشت گرد گروہوں کہ جنہوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے ان کی کاروائیوں کا سب سے زیادہ اگر نقصان کسی کو پہنچ رہاہے کہ تو وہ فلسطینی کاز کو پہنچ رہا ہے اور مظلوم فلسطینیوں کو اس کا براہ راست نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔مفتیان کرام نے اس بات پر زور دیا کہ علمائے اسلام کی ذمہ داری ہے کہ ہم امت مسلمہ کو صیہونزم کے خطرے اور سازشوں کے بارے میں آگہی فراہم کریں، اس موقع پر علمائے اسلام سے اپیل کی گئی کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے آگہی پھیلانے کے لئے اسلامی ثقافتی طرز عمل کو اپناتے ہوئے اس بات کی کوشش کریں کہ فلسطین کاز کو زیادی سے زیادہ فائدہ کس طرح پہنچایا جا سکتا ہے۔انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ کوششیں کبھی ناکام نہیں ہوتی اور ان کاوشوں کا اثر ضرور ہوتا ہے۔مفتیان کرام نے کہا کہ آج آپ مشاہدہ کریں فلسطین کے گرد تمام خطہ آگ میں جل رہاہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟یقیناًیہ صیہونی سازشوں کا سلسلہ ہے کہ صیہونیوں کے مقامی ایجنٹ ہر علاقے میں موجود ہیں اور وہ صیہونزم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں تاہم ہمیں بھی اسی طرح فلسطین کو اپنی تمام تر ترجیحات میں اولین ترجیح قرار دینا ہو گا تا کہ خطے کے مسائل سمیت دنیا کے مسائل کو حل کیا جائے ۔مفتیان عظام کاکہنا تھا کہ ہمیں صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی کام کرنا ہوں گے اور اتحاد امت کو عملی طور پر ثابت کرنا ہو گا آج تمام مسلمان ممالک میں جو کچھ ہو رہاہے اس کا سب سے زیادی نقصان کس کو ہو رہاہے، یقیناًفلسطین کاز کو۔مفتیان عظام نے واضح طور پر کہا کہ فلسطین کے مسئلہ کا حل ہی دنیا کے تمام تر مسائل کا حل ہے۔
بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز کے پہلے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے مختلف ممالک سے آئے ہوئے علمائے کرام، مفتیان عظام اور اسکالرز کاکہنا تھا کہ آج اسلامی مزاحمتی تحریکیں فلسطین کی آزادی کی اصلی جد وجہد میں مصروف عمل ہیں ہمیں چاہئیے کہ اسلامی مزاحمتی تحریکوں بشمول حزب اللہ، حماس، جہاد اسلامی فلسطین کو مزید مستحکم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ،کیونکہ ہمارا دشمن ہم پر جہاد کے نام پر حملہ آور ہو اہے اور جہاد کی غلط تشریحات پھیلا کر دہشت گرد گروہوں کو براہ راست اپنے ناپاک عزائم کے لئے استعمال کیا جا رہاہے تاہم ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حل میں اسلامی مزاحمت کے کردار کو مستحکم کریں اور دہشت گرد گروہوں کی سرکوبی کی جائے۔مقررین نے واضح طور پر اعلان کیا کہ فلسطین ، فلسطینیوں کا وطن ہے اور کسی بھی قسم کے ایسے فیصلے یا سازش کو عملی جامہ نہیں پہنانے دیا جائے گا کہ جس میں فلسطین میں دو ریاستی حل یا فلسطینیوں کو حقوق پائمال ہوں۔کانفرنس کے مقررین نے کہا کہ ہم علمائے اسلام اور امت مسلمہ دنیا کے یہودیوں کے خلاف نہیں بلکہ ہم صیہونزم کے خلاف ہیں کہ جو نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کے لئے خطرہ بن چکی ہے۔مقررین کاکہنا تھا کہ آج صیہونزم کے شواہد عراق مین دیکھے جا رہے ہیں کہ کس طرح صیہونزم کے لئے کام کرنے والے گروہ عراق کو تقسیم کرنے کے در پے ہیں ٹھیک اسی طرح کا مسئلہ پاکستان کے اندر بھی دیکھا گیا ہے کہ جہاں صیہونیوں کے مقامی ایجنٹ فرقہ واریت اور لسانیت کے نام پر عوام کا قتل عام کرتے ہیں۔
بین الاقوامی کانفرنس کے آخری اجلاس سے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے مشیر اعلیٰ جناب ڈاکٹر علی اکبر ولایتی ، مفتی اعظم قدس محمد حسین، مفتی اعظم لبنان شیخ ماہر حمود نے خطاب کیا ۔مقررین نے اپنے خطاب میں کہا کہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے تاہم فلسطینیوں کے حق واپسی کی مہم صرف لبنان سے نہیں بلکہ دنیا کے ہر گوش و کنار سے اٹھنی چاہئیے،۔
ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کاکہنا تھا کہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا پہلاقبلہ اور تیسرا مقدس ترین مقام ہے، تاہم تمام امت اسلامی کو کندھے سے کندھا ملا کر القدس کی بازیابی کے لئے جد وجہد کرنا چاہئیے،یہ صرف فلسطینیوں کے لئے نہیں ہے بلکہ پوری امت کا مسئلہ ہے،آج مسجد اقصیٰ خطرے میں ہے،آج ضرورت اس مار کی ہے تمام اسلامی ممالک اپنے اپنے طور پر القدس کے دفاع کے لئے کوششوں کا آغاز کریں،ان کاکہنا تھا کہ فلسطین پورا فلسطینیوں کے لئے ہونا چاہئیے نہ کہ عالمی استعماری قوتوں کی ایماء پر فلسطین کی تقسیم کے منصوبے کو قبول کرلیا جائے اور یہ علمائے اسلام کی اہم ترین ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امت اسلامی کو اس خطرے سے آگاہ کریں۔آج فلسطینیوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جس میں سے ایک فلسطینی مہاجرین کا مسئلہ ہے جو دنیاکے متعدد ممالک میں در بدر پھرتے ہیں، کیا انہیں اپنے وطن واپس جانے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہئیے؟ کیا یہ تمام حقوق صرف مغربی اقوام کے لئے ہیں؟آج دنیا کے بدلتے ہوئے حالات کے اند سب سے زیادہ جو لوگ مصیبتو ں کا شکار ہو رہے ہیں وہ فلسطینی مظلوم عوام ہیں۔آج وقت ہے کہ عالم اسلام کے علمائے کرام اپنے کاندھوں پر یہ ذمہ داری محسوس کریں اور صیہونزم کے خلاف نبرد آزما ہونے کا عزم کر لیں اور علمائے اسلام کو یہ ذمہ داری بھرپور انداز میں انجام دینا ہو گی۔فلسطین کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور پوری دنیا کے لئے مہم ترین بھی ہے ، تاہم اس بات کو یاد رکھا جائے کہ فلسطین پورا فلسطینیوں کا وطن ہے، مغربی کنارے سے غزہ تک، یعنی نہر سے بحر تک پورا فلسطین، اسی طرح ہمیں اسلامی مزاحمت کی تحریکوں بشمول حزب اللہ ، حماس، جہاد اسلامی فلسطین کے شانہ بشانہ رہنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کو مزید تقویت فراہم ہو ۔
مقررین نے کہا کہ فلسطینیوں کی تاریخ ہے کہ انہوں نے کبھی ظلم اور جبر پر خاموشی اختیار نہیں کی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ اب بھی ایسا ہی کر رہے ہیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے مظلومین کی نصرت کے لئے ایسے اقداما ت انجام لائیں کہ صیہونزم کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیں۔کانفرنس کے اختتام پر شہدائے فلسطین کے خانوادوں کی تکریم کے لئے اعزازات بھی دئیے گئے ۔