اسرائیل میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک ادارے نے اپنی حالیہ رپورٹ میں غزہ میں مسلط اسرائیلی معاشی ناکہ بندی کے مضر اثرات پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے فلسطینیوں کا دانستہ قتل عام قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں گذشتہ بر دسمبر میں غزہ پر مسلط جنگ دوران ہونے والی تباہ کاریوں اور اس کے انسانی زندگی پر اثرات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے بعد غزہ کے متاثرہ شہریوں کی بہبود کے لیے جنگی بنیاد پر امداد کی فراہمی اور تعمیرنو کی ضرورت تھی، تاہم اسرائیل کی جانب سے نہ صرف تعمیر نو کے کاموں میں رکاوٹیں پیدا کی جارہیں بلکہ شہر کی تمام راہداریاں بند کر کے معصوم لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی میں معاشی ناکہ بندی کے باعث انسانی حقوق کی صورت حال نہایت تشویش ناک ہے، شہری بنیادی ضروریات سے قطعی طور پرمحروم ہیں اور علاج معالجے کے بنیادی ضروریات نہ ہونے کے باعث مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل غزہ کے شریوں کو دشمن خیال کررہا ہے، جس کے باعث وہاں کے مکینوں کو فلسطین کے دوسرے علاقوں میں روزگار کی تلاش کے لیے جانے کی سہولت بھی فراہم نہیں کی جارہی، اسرائیل کی جانب سے ایسی قدغنیں لگائی جارہی ہیں جن سے شہریوں کی مشکلات دو چند ہو گئی ہیں۔ غزہ میں نی پانی ہے نہ بجلی، نہ ایندھن دستیاب ہے اور نہ ہی اشیائے خوردونوش میسر ہیں، ہسپتالوں کے کھنڈرات میں مریض سسک سسک کرجانیں دے رہے ہیں، رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے کہ اسرائیل جوکہ خود انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کا دعویٰ کرتا ہے جمہوریت کی نفی اور انسانی حقوق کی دشمنی کی بدترین مثالیں قائم کر رہا ہے۔