عماد مغنیہ کون تھا؟ عماد مغنیہ کیا تھا؟ ان دو سوالوں کا جواب تلاش کرنے کے لئے شاید مدتوں گذر جائے لیکن شہید حاج عماد مغنیہ کی پینتالیس سالہ زندگی کے چند اہم ترین راز جو کہ ان کی شہادت کے بعد افشاں ہوئے کو دیکھنے اور سننے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ حاج عماد مغنیہ ایک خدائی فوج کا سپاہی تھا جس کی پوری زندگی مظلومین جہاں کی حمایت اور مدد کی خاطر بسر ہوئی اور یہاں تک کہ وہ اس فانی دنیا سے اس حالت میں کوچ کر گیا کہ اس کا جسم اس کے پاکیزہ خون سے لت پت تھا کہ جس طرح ایک خدائی فوج کے مجاہد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں شہادت حاصل کرے اور بالآخر وہی ہوا کہ شہید عماد مغنیہ اپنے خالق الہٰی سے جا ملا، یہ فروری کی بارہ تاریخ تھی اور سنہ2008ء کی بات تھی کہ جب اسرائیلی دہشت گردوں نے حاج عماد مغنیہ کو کئی برس کی محنت کے بعد اپنا نشانہ بنانے میں کامیابی حاصل کی اور حاج عماد کو شہید کر دیا۔
شہید عماد مغنیہ کو لبنان میں ’’حاج رضوان‘‘ کا لقب دیا گیا تھا اور وہ پوری زندگی اسی لقب سے ہی مشہور رہے، حاج عماد مغنیہ کی ولادت لبنان کے جنوبی علاقے تائر دبہ میں بارہ جولائی سنہ 1962ء میں فیاض مغنیہ کے گھر میں ہوئی، عماد مغنیہ کے دو بھائی جن کے نام فواد مغنیہ اور جہاد مغنیہ ہے وہ دونوں بھی صیہونی غاصب اسرئیلیوں سے جہاد کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے۔حاج عماد مغنیہ بچپن سے ہی دینی ماحول میں پرورش پا کر جوانی کی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے اپنی شہادت کی راہ پر پہنچے، شہید کے گھر کا ماحول دین خداوندی سے مالا مال تھا اور یہ اسی پرورش کا ہی اثر تھا کہ حاج عماد مغنیہ نے اپنی پوری زندگی مظلوموں کی نصرت اور مدد کی خاطر بسر کر دی اورفلسطین کی آزادی کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے شہادت پائی۔
حاج عماد مغنیہ کی شہادت سے جہاں اسلامی مزاحمت کے مجاہدین کو دھچکا لگا وہاں شہید کی شہادت مجاہدین کے حوصلوں اور ہمت میں ایک مضبوط ستون کی طرح پیوست ہو گئی، حاج عماد مغنیہ کی شہادت کے موقع پر لبنان سمیت فلسطین میں ہر آنکھ اشک بار تھی اور انسان یہی دعا کرتا ہوا نظر آتا تھا کہ خدا کرے یہ خبر درست نہ ہو، لیکن شاید تقدیر خداوندی کچھ اور ہی تھی۔بہر حال حاج عماد مغنیہ کی شہادت کی خبر اسلامی مزاحمت کے قائدین اور جوانوں کے لئے کوئی عجیب خبر نہ تھی کیونکہ جو لوگ اور دوست احباب حاج عماد مغنیہ کی شخصیت سے واقف تھے وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ حاج عماد مغنیہ شہید کر دئیے جائیں گے لیکن دوسری طرف امریکی اور صیہونی انتظامیہ انتہائی بے صبری نظر آتی تھی کہ جس نے ماضی میں بھی حاج عماد مغنیہ کو قتل کرنے کے کئی ناکام حربے آزما لئے تھے، اس مرتبہ شاید ان کا حربہ کام کر گیا تھا اور وہ بڑی ہی بے صبری سے اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ یہ خبر درست ہونی چاہئیے کیونکہ ماضی میں متعدد مرتبہ امریکی بدنام زمانہ جاسوس ایجنسی سی آئی اے نے حاج عماد مغنیہ کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کی غرض سے کئی ایک مرتبہ کوششیں کی تھیں لیکن ہر مرتبہ ان کے حصے میں ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ آیا البتہ اس مرتبہ بھی امریکی وصیہونی پنڈت یہی سوچ رہے تھے کہ وہ کامیاب ہوئے ہیں لیکن شاید انہیں معلوم نہیں ہے کہ اللہ کی راہ میں نکلنے والے مجاہدین کی آرزو ہی شہادت ہوتی ہے اور در اصل شہادت کے بعد مجاہدین ہی کامیاب ہوا کرتے ہیں نہ کہ وہ شیاطین جو اللہ کے مجاہدوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں اور ان کو قتل کرتے ہیں۔
حاج عماد مغنیہ نے اپنی پوری زندگی کو اللہ کے راستے میں صرف کیااور اللہ کے دین اور دنیا کے مظلوموں کی حمایت کرنے کی خاطر ہزاروں عماد مغنیہ کی تربیت کی اور مجاہدین کو اسلام کی خدمت کے لئے تیار کیا،۔حاج عماد مغنیہ بچپن سے جوانی اور پھر شہادت کے وقت تک اپنی روحانی شخصیت اور لوگوں سے محبت کی وجہ سے بے حد مقبول تھے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان ان سے عشق کیا کرتے تھے اور ہر طبقے کا فرد ان کی عزت کیا کرتا تھا،حاج عماد ہمیشہ نوجوانوں کو درس دیا کرتے تھے کہ اللہ کے دشمنوں اور اللہ کے نبی اکرم (ص) کے دشمنوں سے جنگ کرنا ہی ہمارا اصل فریضہ ہے اور حاج عماد نے ہمیشہ امریکہ کو عالمی دہشت گرد قرار دیا اور صیہونزم کو پوری دنیا کی مشکلات اور مسائل کی جڑ قرار دیا اور مسئلہ فلسطین کو عالم انسانیت کا مسئلہ قرار دیتے ہوئے فلسطین کو صیہونی پنجوں سے آزاد کروانے کے عزم کے ساتھ جدوجہد کی۔
حاج عماد مغنیہ نے لبنان میں سنہ1975ء میں سول جنگ کے دوران اسکول سے فراغت کے بعد ’’فتح موومنٹ‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور لبنان میں موجود فلسطینی مہاجرین سمیت لبنانی عوام کی خدمت اوران کو صیہونی افواج کے حملوں سے محفوظ رکھنے میں مصروف عمل رہے،حاج عماد فتح موومنٹ میں اپنے دیگر ساتھیوں کے مقابلے میں سب سے چھوٹے تھے اور آپ نے بہت تیزی کے ساتھ فتح موومنٹ میں ترقی حاصل کی ، یہاں رہتے ہوئے حاج عماد نے اپنی مہارتوں میں مزید بہتری پیدا کی اور بہترین جنگجو بننے کی تربیت بھی حاصل کی۔بہت کم عرصے میں حاج عماد مغنیہ کو فتح موومنٹ کے ایک سیکشن کا نچارگ بنا دیا گیا جہاں حاج عماد نے اپنے ساتھ کچھ جوانوں کو تیار کیا جو ہمیشہ حاج رضوان کے حکم پر تیار رہتے تھے۔
سخت ترین حالات کے باوجود اور روزانہ کے فوجی معرکوں کے باوجود بھی حاج عماد مغنیہ کی دینی پابندیوں میں کمی نہیں آئی وہ ہمیشہ پانچ وقت کی نماز مسجد میں ادا کرتے تھے اور آیت اللہ محمد حسین فضل اللہ کے درس اخلاق سمیت دیگر مذہبی مجالس میں شریک رہتے تھے۔حاج عماد مغنیہ آیت اللہ حسین فضل اللہ کی سیکورٹی پر معمور جوانوں کے ایک دستے کے انچارج تھے اور یہ ذمہ داری انہوں نے سنہ1980ء اور 1982ء میں اس وقت تک انجا م دی جب غاصب اسرائیلیوں نے لبنان پر حملہ کیا اور اس کے جواب میں حاج عماد مغنیہ نے کمر باندھ لی تھی کہ غاصب اسرائیلی دشمن کو کسی صورت کامیابی حاصل نہیں کرنے دیں گے۔
لبنانی دارالحکومت بیروت پر اسرائیلی قبضہ کے بعد اسرائیل نے بیروت کا محاصرہ کر لیا تو اس وقت بھی حاج عماد مغنیہ بیروت میں موجود رہے اور اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر اسرائیلیوں کے خلاف خفیہ کاروائیاں انجام دیتے رہے،انہی کاروائیوں میں اسرائیلی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا اور بالآخر اسرائیلیوں نے بیروت کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا، یہ مجاہدین کی عظیم الشان فتح تھی جو غاصب اسرائیلی دشمن کے مقابلے کے نتیجے میں سامنے آئی۔حاج عماد مغنیہ اسرائیلیوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے پہلے مجاہد تھے کہ جنہوں نے لبنان پر اسرائیلی قبضے کے بعد اعلان جہاد کیا اور اسرائیلیوں کو پسپا کر دیا، سنہ1982ء میں حزب اللہ کا قیام عمل میں آیا تو حاج عماد مغنیہ سب سے پہلے حزب اللہ میں شامل ہوئے اور آپ کو کمانڈر او ر منصوبہ ساز کا عہدہ دیا گیا اور آپ کی قیادت میں حزب اللہ نے غاصب اسرائیل کے خلاف کئی ایک محاذوں پر کامیابی حاصل کی۔
حاج عماد وہ عظیم مجاہد ہے کہ جس نے فلسطین اور لبنان پر قابض غاصب اسرائیلیوں کے خلاف کئی آپریشن کئے اور غاصب اسرائیل کے ساتھ براہ راست نبرد آزما رہے، وہ بہت سی کامیابیوں کا بانی تھا جو مجاہدین نے غاصب اسرائیل کے خلاف مقابلے میں حاصل کیں،حاج عماد نے مزاحمت کا باب قائم کیا اور ایک مزاحمتی مدرسے کی بنیاد رکھی جہاں نوجوانوں کو دینی ، اخلاقی اور مزاحمتی تربیت کے ساتھ ساتھ فنہ مہارتیں بھی سکھائی جاتی ہیں۔
حاج عماد مغنیہ کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے امریکی خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حاج عماد مغنیہ ایک ذہین اور قابل فوجی آفیسر تھا کہ جس کی حکمت عملی کے سامنے امریکہ لبنان میں بے بس ہو گیا اور لبنان میں امریکی منصوبے ناکام ہوئے۔حاج رضوان کی مجاہدانہ صلاحیتوں کا ثمر تھا کہ سنہ2000ء میں غاصب اسرائیلی افواج لبنان سمیت جنوبی لبنان پر اپنا تسلط ختم کرتے ہوئے ذلت اور رسوائی کے ساتھ فرار ہو گئیں، اور اسی طرح سنہ2006ء میں اسرائیل کی جانب سے شروع کی جانے والی33روزہ جنگ میں بھی حاج عماد مغنیہ اسرائیل کے مقابلے میں تھا جس کے باعث غاصب اسرائیل 33روز کی گھمسان کی لڑائی کے باوجود بھی حزب اللہ کو شکست دینے اور لبنان پر دوبارہ تسلط حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہا ۔
حاج عماد مغنیہ کی شہادت کے بعد حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ نے حاج عماد مغنیہ کی زندگی سے متعقل کئی ایک راز افشاں کئے جن میں سے ایک حاج عماد مغنیہ کی صلاحیتوں کا اعتراف تھا کہ جو انہوں نے اسرائیل کے مقابلے میں سنہ2006ء میں 33روزہ جنگ میں دکھائیں اور حزب اللہ نے اس جنگ کا فاتح بھی حاج عماد مغنیہ کو قرار دیا، حاج عماد کی شہادت پر حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ کے تاریخی جملے حاج عماد کی صلاحیتوں اور قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ، سید حسن نصر اللہ نے اسرائیلیوں اور امریکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ، ’’تم نے شیخ راغب حرب کو شہید کیا ہم نے تمھیں لبنان کے مختلف علاقوں سے نکال باہر کیا، تم نے ہمارے قائد سید عباس موسوی کو شہید کیا ہم نے اس کے جواب میں تمھیں پورے لبنان سے نکال باہر کیا اور اب تم نے حاج عماد کو شہید کیا ہے ،اللہ کی قسم ! ہم تمھیں (اسرائیل) کو نابود کر دیں گے‘‘۔ سید حسن نصر اللہ کے بارے میں پہلے ہی اسرائیلی ذرائع ابلاغ گواہی دے چکے ہیں کہ سید حسن نصر اللہ کبھی جھوٹ نہیں بولتے ، دشمن اس بات سے بخوبی آگا ہ ہے کہ سید حسن نصر اللہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں۔