مشرق وسطٰی کی مختلف ریاستوں شام، مصر، لیبیا، بحرین، عراق سمیت دیگر مقامات پر جاری بحرانی کیفیت کا ذمہ دار براہ راست امریکہ اور اسرائیل ہے۔ مصر کی صورتحال ہمارے سامنے ہے جہاں پر ایک ایسی حکومت کو جو سینکڑوں مصری غیرت مند عوام کی قربانیوں کے بعد منظر عام پر آئی تھی، اسے ایک منصوبہ بندی کے تحت ایک سال کے عرصے میں ہی غیر مستحکم کر دیا گیا اور پھر ایک ایسے فوجی جنرل کو کمانڈ سونپ دی گئی جس کا براہ راست تعلق غاصب صیہونی اسرائیل سے ہے۔ مصر کا انقلاب ہو یا تیونس سے شروع ہونے والی اسلامی بیداری کی لہر، اور اسی طرح دوسرے ممالک میں جہاں ہم نے گذشتہ تین سالوں کے عرصے میں اسلامی بیداری کا مشاہدہ کیا تھا، ان تمام تحریکوں کے درمیان ایک شعار مشترک تھا جو کہ ”فلسطین” تھا، یعنی مصر کی سابقہ حکومت ہو یا تیونس میں بیٹھے ہوئے اس وقت کے بادشاہ ہوں، ان سب نے مسلم امہ کے اہم ترین مسئلے فلسطین کو فراموش کر دیا تھا اور یہ سبب بنا کہ مشرق وسطٰی، عرب مسلم ممالک کی عوام نے قیام کیا اور اپنے قیام کو تحریک آزادی فلسطین کے ساتھ منسلک کر دیا، یعنی اسلامی بیداری کا بنیادی ہدف فلسطین اور فلسطینیوں کی آزادی اور حمایت قرار پایا۔
عالم انسانیت کے ازلی دشمن امریکہ اور صیہونی غاصب ریاست نے مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت مشرق وسطٰی میں ایک ایسی حکمت عملی پر کام کیا ہے جس کا محور اور مرکز فلسطین کے مسئلے کو مسلمانوں اور عرب مسلم ممالک کے بنیادی مسئلے سے نکال کر فلسطین کو صرف ایک ملک کا مسئلہ یا پھر ایسا کہیئے کہ فلسطین کے مسئلے کو فلسطینیوں تک محدود کرنے کی کوشش کی ہے، اور اس کام کو انجام دینے کے لئے جو ٹول استعمال کیا گیا ہے وہ نام نہاد اسلامی گروہ ہے، جسے دنیا آج تکفیری کے نام سے پہچانتی ہے، اس گروہ کی مدد سے عالمی سامراج امریکہ اور اس کے حواریوں نے اسلامی بیداری کی لہر کو روکنے کے لئے شام کا انتخاب کیا اور پھر شام میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا گیا، جس کے بعد شام میں خانہ جنگی کی کیفیت شروع ہوگئی، اوائل میں تو امریکہ اور اسرائیلی حواری یہی کہتے رہے کہ بس چند روز میں شام کو فتح کر لیں گے، لیکن شام کی مزاحمت اور استقامت کے سامنے ان کے تمام حربے ناکام رہے۔
دراصل شام کو نشانہ بنانے کا اصل مقصد فلسطینی مزاحمت کو کمزور کرنا تھا اور آج اگر تین سالہ عرصہ گزرنے کے بعد ہم بغور مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ شام کے مسئلے میں جو سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ہیں وہ فلسطینی ہیں اور مسئلہ فلسطین کو شدید دھچکا لگا ہے، شام کے مسئلے کے آغاز سے ہی تکفیری دہشت گردوں نے شام میں موجود فلسطینیوں کو نشانہ بنایا تاکہ شام میں مقیم لاکھوں فلسطینی کہ جنہیں بشار الاسد کی حکومت نے شامی شہری کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ انسانی ضروریات کی تمام سہولیات میسر کی ہیں، ان تمام فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا، تاکہ یہ حکومت کے خلاف ہو جائیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ گروہ جن کو تکفیری کہا جاتا ہے، انہوں نے شامی افواج کے ساتھ ساتھ فلسطینی مسلمانوں کو کیوں قتل کیا؟ آخر کیوں ان فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کر دیا گیا، دراصل یہی وہ امریکی و اسرائیلی منصبوبہ بندی تھی جسے تکفیریوں نے پایہ تکمیل تک پہنچایا کہ شام کے پورے مسئلے میں صرف اور صرف فلسطینیوں کو اس لئے ٹارگٹ کیا گیا، تاکہ اس پورے بحران کا نقصان فلسطین کو پہنچے، اور عملی طور پر وہی ہوا، ایک مرتبہ پھر اپنے گھروں سے بے گھر فلسطینی مہاجرین لبنان کی سرزمین پر ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔
مصر کی صورتحال بھی شام کی صورتحال سے ملتی جلتی ہے کہ جہاں پر ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت فوجی حکومت کو برسر پیکار لایا گیا اور اب مصر کی پوری غیر مستحکم صورتحال کا نقصان اگر کسی کو پہنچ رہا ہے تو وہ فلسطین ہی ہے، غزہ کی سرحد کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے کہ جہاں سے فلسطینی اپنی زندگی کی ضروریات کی اشیاء فراہم کیا کرتے تھے، تاہم غزہ آج بھی اسرائیلی محاصرے کا شکار ہے، غزہ میں پانی کی قلت، دوائوں کی قلت، پٹرول کی قلت سمیت انسانی ضروریات زندگی سے متعلق اشیاء کی شدید قلت ہے اور غزہ میں پندرہ لاکھ سے زائد انسان موجود ہیں لیکن مصر کی غیر مستحکم صورتحال کے باعث اگر کسی کو قیمت ادا کرنا پڑی ہے تو فلسطین ہے کہ جو سب سے مہنگی قیمت ادا کر رہا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال بحرین، یمن، لیبیا، اور بالخصوص عراق میں ہے، کہ غاصب صیہونی ریاست اسرائیل اپنے نمک خواروں کے ذریعے ان ممالک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں مصروف عمل ہے، لیبیا ظاہراً تقسیم کے دہانے پر ہے، بحرین میں آئے روز عوام کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، یمن کی صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ جہاں امریکی اسکیم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسی طرح عراق میں بھی امریکی اور اسرائیلی تربیت یافتہ تربیتی تکفیری گروہ بے گناہ مسلمانوں کے قتل عام میں مصروف عمل ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مشرق وسطٰی میں عرب مسلم ممالک میں جاری بحرانی صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان فلسطین کی تحریک آزادی کو پہنچ رہا ہے اور براہ راست فلسطینی عوام اس بحران میں بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں، کیونکہ ان امریکی اور اسرائیلی پیدا کردہ بحرانوں کے باعث مسئلہ فلسطین پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور خطے سمیت دنیا کے دیگر ممالک علاقائی بحرانوں میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ خطے کے تمام عرب مسلم حکمران مل کر فلسطین کی آزادی کی خاطر مشترکہ جہاد کا اعلان کرتے، لیکن افسوسناک بات ہے کہ مشرق وسطٰی اور خلیج فارس میں موجود عرب مسلم بادشاہتیں نہ تو فلسطین کے مسئلے کے حل کے لئے کوئی کردار ادا کر رہی ہیں اور نہ ہی فلسطینیوں کی مدد کر رہی ہیں بلکہ اس کے برعکس عرب بادشاہتیں خطے کے دیگر عرب مسلم ممالک کو غیر مستحکم کرنے کے لئے امریکی اور اسرائیلی اسکیم کے تحت اپنا سرمایہ لگانے میں مصروف عمل ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ممالک میں موجود خطرناک قسم کے دہشتگردوں کو اردن میں لگائے گئے کیمپوں میں بھیج کر دہشت گردی کی تربیت فراہم کر رہی ہیں۔
بہر حال خطے کی بگڑتی ہوئی اس صورتحال میں جہاں امریکہ اور اسرائیل براہ راست ملوث ہیں، وہاں خطے کی عرب بادشاہتیں بھی برابر کی حصے دار ہیں کیونکہ سرمایہ عرب بادشاہتوں کا ہے اور تربیت امریکی اور اسرائیلی دے رہے ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ مسلمانوں کے اہم ترین مقدس مقام بیت المقدس کی کسی کو پرواہ نہیں اور فلسطین کے اندر بسنے والے لاکھوں فلسطینیوں کی کوئی پرواہ نہیں کر رہا ہے، اور پوری صورتحال میں فلسطین اور فلسطینی عوام بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ اسی عنوان سے فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے ایک عظیم رہنما ڈاکٹر محمود الزھار کہ جو فلسطین کی آزادی کو مسلح جہاد سے ممکن سمجھنے کو اپنا عقیدہ سمجھتے ہیں اور آپ کے فرزند بھی تحریک آزادی فلسطین کی راہ میں شہید ہو چکے ہیں، ڈاکٹر الزھار نے حال ہی میں ایک ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا ہے کہ عرب خطے میں پیدا ہونے والی تمام تر صورتحال میں فلسطین نشانہ بنا ہے اور فلسطینیوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے اور خطے کی عرب بادشاہتیں اپنے اپنے اندرونی اختلافات میں الجھی ہوئی ہیں۔
ڈاکٹر الزھار نے کہا ہے کہ فلسطین جو مسلم امہ کے لئے ایک مرکزی حیثیت کا حامل ہے، امریکہ اور اسرائیل عرب بادشاہتوں کے ساتھ مل کر فلسطین کو مسلم امہ کے مرکزیت سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اس حوالے سے خطے میں فرقہ واریت کو پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ خطے کے عوام باہم دست و گریباں ہو جائیں اور مسئلہ فلسطین سے صرف نظر کر لیں، ان کا کہنا تھا کہ حماس مزاحمت پر یقین رکھنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ بھی فلسطین کے لئے مزاحمت کر رہے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں، حماس کے بنیادی رہنما ڈاکٹر محمود الزھار نے واضح طور پر کہا کہ خطے میں تکفیری نہ صرف عرب مسلم ممالک کے لئے خطرہ ہیں بلکہ فلسطین اور مزاحمت فلسطین کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں، تاہم ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا اصل دشمن صرف اور صرف امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ہر آدمی اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے جو وہ انجام دیتا ہے اور آج ہمارے لئے سب سے اہم مسئلہ فلسطین کا ہے کیونکہ اسرائیلی دشمن نے فلسطین پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، تاہم ہماری اولین ترجیح صرف اور صرف فلسطین ہونی چاہئیے اور عوام کو چاہئیے کہ دشمن کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے ان سازشوں کو ناکام بنا دیں اور آپس میں متحد رہ کر فلسطین کی آزادی کے لئے جدوجہد کریں، کیونکہ فلسطین ہمارا مرکز ہے۔