علامہ قاضی احمد نورانی صدیقی جمعیت علمائے پاکستان کے مرکزی رہنما ہیں، زمانہ طالب علمی میں پاکستان میں فروغ عشق
مصطفٰی (ص) کے لئے سرگرم عمل طلباء تنظیم انجمن طلباء اسلام میں شمولیت اختیار کی اور ناظم کراچی رہے، اسی تنظیم میں صوبائی و مرکزی ذمہ داریوں پر بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان میں مسئلہ فلسطین کے لئے جدوجہد کرنے والے بنیادی ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں، آپ فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کی مرکزی سرپرست کونسل کے بھی رکن ہیں۔
پی ایل ایف مظلوم فلسطینیوں کی آواز کو دنیا بھر میں پہنچانے کیلئے کوشاں ہے، یہ بتائیے گا کہ فلسطین کاز کے حوالے سے منعقد کی جانے والی حالیہ کانفرنسز کے کیا دور رس نتائج مرتب ہونگے۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: القدس کے لیے کوشش اور جدوجہد کرنا اور القدس کی آزادی کے لیے جو لوگ عملی طور پر سرگرم عمل ہیں ان کی اخلاقی مدد کرنا اور ان کی آواز کو دنیا بھر میں پھیلانا ہر مسلمان کا فریضہ ہے۔ ناصرف مسلمان بلکہ ہر ذی شعور انسان فلسطینی مسلمانوں کے لیے یہ دعا کرتا ہے اور وہ یہ جانتا ہے کہ اسرائیل دہشت گردی کی بدترین مثال قائم کیے ہوئے ہے اور اس ظلم کو مسلسل روا رکھے ہوئے ہے جو کہ ہرگز انسانیت کے لیے مناسب نہیں ہے۔ القدس کی آزادی کے لیے دنیا بھر میں مختلف تحریکیں سرگرم عمل ہیں۔ پاکستان میں فلسطین فاؤنڈیشن اپنے نہج پر کام کر رہی ہے اور اس سال ہم نے پہلے کی نسبت زیادہ کام کیا ہے۔
29 جولائی کو انٹرنیشنل کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں دنیا بھر سے رہنماؤں کو دعوت دی گئی۔ اس کانفرنس میں جن مہمانوں نے شرکت کی اور خطابات کیے انہوں نے یہاں کے لوگوں کو حوصلہ دیا، نیز ان کے خطابات سے یہاں کے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ فلسطین کی آزادی کس مرحلے میں ہے اور وہاں کے احباب القدس کی آزادی کے لیے کتنا جذبہ رکھتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ دن قریب ہے کہ جب القدس فلسطین آزاد ہوگا اور ہر مسلمان القدس میں جا کر اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوسکے گا۔
ملی یکجہتی کونسل نے اٹھائیس رمضان کو یوم القدس منانے کا اعلان کیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے دشمن کو ایک مشترکہ پیغام جائے گا، جس کے نتیجے میں القدس اور فلسطین کی آزادی ممکن ہو پائے گی۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: ملی یکجہتی کونسل کی طرف سے یوم القدس منانے کا اعلان خوش آئند ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگ انفرادی طور پر کام کرتے رہے ہیں اور اب ملی یکجہتی کونسل کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی اگر مشترکہ طور پر یہ اعلان کریں تو اس سے قوم کے شعور کا اندازہ ہوگا اور جب یہ آواز فلسطین تک پہنچے گی تو ان کو بھی مدد ملے گی اور انہیں حوصلے ملے گا کہ وہ تنہا نہیں ہیں، ان کی جرات و ہمت بلند ہوگی کہ پاکستان کے مسلمان ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
کچھ ماہ پہلے آپ لوگ گلوبل مارچ ٹو یروشلم کا حصہ بنے، اس کے کیا اثرات رونما ہوئے۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: فریڈم فلوٹیلا کے بعد گلوبل مارچ ٹو یروشلم یعنی کاروان آزادی برائے القدس ایک بہت بڑا مظاہرہ تھا۔ یہ کاروان پاکستان سے 14 مارچ کو روانہ ہوا تھا، اس سے پہلے انڈیا، انڈونیشاء، ملیشیاء، افغانستان و دیگر ممالک کے مندوبین پاکستان پہنچے، اس کے بعد ہم 14 مارچ کو کراچی سے روانہ ہوئے، ہم ایران سے ہوتے ہوئے شام پہنچے، اس کے بعد لبنان کی سرزمین میں داخل ہوئے، جہاں پر ہم اس جگہ پہنچے جس کو اقوام متحدہ نے بند کیا ہوا ہے اور جہاں اسرائیل کا وہ حصہ نظر آتا ہے، جہاں پر انہوں نے قبضہ کیا ہوا ہے۔
30 مارچ کو وہاں پر دنیا بھر سے لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا۔ دوسری سائیڈ پر بھی بہت سے لوگ جمع تھے، وہاں پر فائرنگ بھی ہوئی، جس سے بہت سے لوگ زخمی بھی ہوئے۔ اس طرح اسرائیل کی سرحدوں پر دنیا بھر کے لوگ جمع ہوئے اور ان کے اجتماع نے یہ بات ثابت کر دی کہ اسرائیل غلطی پر ہے اور دنیا بھر کے لوگ اسرائیل کو امن کے لیے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ اس طرح فلسطینی بھائیوں کو یہ پیغام بھی ملا کہ وہ تنہا نہیں ہیں، بلکہ دنیا بھر کے مہذب لوگ ان کے ساتھ شامل ہیں۔
شام کے ایشو پر آپ کا کیا موقف ہے۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: سیریا کے بارے میں متعدد اطلاعات ہیں، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی برادر ملک کے عوام کا مرنا اور وہاں کے حالات کا خراب ہونا ہمارے لیے بہتر نہیں ہے۔ میں اس مسئلے کی گفتگو کی گہرائی میں نہیں جاؤں گا کہ وہاں کون حکومت کرے اور کون نہ کرے کیونکہ یہ ان کے ذاتی مسائل ہیں، لیکن جہاں بھی اگر تیسری قوت جو کہ اسلام کے خلاف ہو، اس کے ہاتھوں مسلمانوں کا خون بہے، وہ ناقابل برداشت ہے۔
کیا کسی ملک کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی بھی اسلامی ملک کے اندر مداخلت کرے اور وہاں کے شہریوں کو حکومت کیخلاف ابھارے۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: امریکہ اور اس کے حواری ہر اس ملک اور ہر اس مقام پر مداخلت کرتے ہیں جہاں ان کے مقاصد ہوں۔ ان کی مداخلت دو قسم کی ہوتی ہے، ایک تو حکمرانوں کو عوام پر حملے کے لیے آمادہ کرتے ہیں اور دوسری طرف عوام میں سے ایک گروہ ان حکمران سے جنگ کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ اس میں درحقیقت نقصان دونوں طرف مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے۔ جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ ایران عراق جنگ کرائی گئی۔ اس جنگ میں دونوں طرف سے مسلمان مارے گئے، اس میں فائدہ کسی کا بھی نہیں ہوا۔
بہرحال میں سمجھتا ہوں کہ کچھ دردمند مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ بیٹھ کر شام کے مسئلے کا تصفیہ کرائیں، صرف بیانات دینا کافی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم ممالک کو برما کے مسئلے کا حل بھی فوری نکالنا چاہیے۔ جس میں ہزاروں بے گناہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف ایک خاموش جنگ چل رہی ہے اور مسلمانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ہمیں خود اس بارے میں ہوشیار ہونا چاہیے اور جاننا چاہیے کہ ہمارا دشمن ہم پر کہاں وار کرسکتا ہے اور ہمیں اس کا تدارک کیسے کرنا چاہیے۔
اسلام ٹائمز: آپ نے برما کے حوالے سے بات کی، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ OIC کا ہر جگہ پر خاموش رہنا کس بات کی دلیل ہے۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: OIC کا خاموش کردار کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی ہر معاملہ پر مسلمانوں کا یہ ادارہ خاموش رہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کے کیا مقاصد ہیں۔ OIC نے آج تک کسی بھی مقام پر کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بے حس، پست ذہنیت لوگوں کا اجتماع ہے کہ جن کا ذکر نہ کرنا ہی ہمارے لیے بہتر ہوگا۔
پاکستان کے موجودہ حالات اور خاص کر بلوچستان کی صورتحال کو کس تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔؟
علامہ قاضی احمد نورانی: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے حالات مجموعی طور پر بہتر ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان کا اتنا بڑا صوبے بلوچستان مجموعی طور پر خلفشاری کی طرف جا رہا ہے، ایک طرف بلوچ انتہاء پسند کردار ہے، دوسری طرف اگر آپ جائزہ لیں جو کہ اصلیت ہے کہ بعض ممالک جو کہ یہ نہیں چاہتے کہ گوادر پورٹ ترقی کرے، ان ممالک کے یہاں پر مفادات ہیں اور وہ گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کے لیے بلوچستان میں فسادات کرانا چاہتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ بلوچستان میں معدنیات کے بے شمار ذخائر ہیں۔ وہ ممالک جو پاکستان کو ترقی کرتے نہیں دیکھنا چاہتے، وہ پریشان ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہاں معدنیات کے حصول کے لیے کوششیں شروع ہو جائیں اور پاکستان ترقی کر جائے، اس لیے بلوچستان میں انتہاء پسندی کی تحریک میں کئی عناصر شامل ہیں۔
بہرحال یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس تحریک کو ختم کرے اور وہاں کے لوگوں کی احساس محرومیت کو ختم کرے۔ وہاں کے تعلیمی ادارے، ہسپتال و دیگر اداروں میں وہاں کے افراد کو فوقیت دی جائے، تاکہ ان لوگوں میں احساس محرومیت ختم ہو سکے۔ صرف آپریشن کرنا، یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سیکورٹی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔
—