فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے فتح کے صدر محمود عباس سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے انہیں تمام قومی معاملات پر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ ان کی حکومت غزہ یا کسی بھی دوسرے مقام پر فتح حکومت سے گفت و شنید کے لیے تیار ہے۔ فلسطینی وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے منگل کے روز نوجوانوں سے خطاب کے دوران ابومازن محمود عباس اور تحریک آزادی فلسطین (فتح) سے غزہ یا کسی بھی دیگر مقام پر مذاکراتی اجلاس کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حماس نوجوانوں کے مطالبے پر لبیک کہتے ہوئے جامع قومی مفاہمت کے لیے تمام معاملات پر فتح سے براہ راست مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اسماعیل ھنیہ نے اعلان کیا کہ اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس قوم کے نوجوانوں کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے فلسطینی قومی اتفاق رائے کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کریگی۔ بہ قول اسماعیل ھنیہ ان کی حکومت مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینی قوم میں اتفاق رائے کی خاطر نوجوانوں کی تحریک کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور حکومت کے تمام وزراء اور محکمے اس سلسلے میں نوجوانوں کی مدد کریں گے۔ ان کے بہ قول حماس کی حکومت نے قومی اتحاد کی خاطر اس تحریک کو تمام سرگرمیوں کی اجازت دی ہے۔ وزیر اعظم نے اس موقع پر بتایا کہ فلسطینی قوم میں پیدا ہونے والے اختلاف کے داخلی اسباب کے ساتھ بہت سے خارجی وجوہات بھی ہیں۔ فلسطینی قوم میں اس تقسیم نے قوم کے مسائل میں اضافے کے ساتھ عالمی برادری کے خدشات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تقسیم کے جاری رہنے کا سبب مغربی کنارے کی قیادت کے سیاسی فیصلوں کی کمزوری ہے۔ انہوں نے قومی بنیادوں پر قائم مفاہمت کو نجی اور جزوی مفاہمت پر قربان کر دیا۔ فلسطینی وزیر اعظم نے زور دیتے ہوئے کہا ہماری حکومت میں مجلس قانون ساز میں معزز افراد موجود ہیں اسی طرح ہم نے مزاحمتی تحریک بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ ہم فلسطینی تقسیم پر یقین رکھنے والے کسی شخصیت پر یقین نہیں رکھتے۔ اپنے دعوے کی تصدیق ہم ہر مرحلہ پر ثابت کر چکے ہوں چاہے وہ قومی منصوبہ بندی ہو یا عرب پیس انی شی ایٹو یا انفرادی ممالک کے اقدامات ہم نے ہر موقع پر مثبت کردار ادا کیا۔ اسماعیل ھنیہ نے فلسطینی قومی مفاہمت کی خاطر جمع ہونے والے ہجوم کو بابرکت قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کا یہ ٹھاٹھیں مارتا سمندر فلسطینی مسلمہ اصولوں کی حفاظت اور اس کی آزادی کے لیے جمع ہوا ہے۔ ھنیہ نے کہا کہ ہم قوم کے مطالبے پر فلسطینی اختلاف رائے ختم کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے غزہ کا محاصرہ فی الفور ختم کرانے اور یہاں تعمیرات کے آغاز کا مطالبہ کیا۔ وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ نے مزید کہا کہ ہم فتح اور فلسطینی اتھارٹی سے جامع قومی مذاکرات اور مسئلہ فلسطین کے مستقل حل قومی فلسطینی کانفرنس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تقریر کے اختتام پر وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ قومی امنگوں کے برخلاف چلنے والی حکومت مثبت اہداف سے دور ہوتی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی مغربی کنارے میں فتح اور غزہ میں حماس کی حکومتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ سنہ 2006ء کے فلسطینی انتخابات میں حماس نے فتح کی 45 نشستوں کے مقابلے میں 74 نشستوں سے کامیابی حاصل کی تھی جس پر حماس نے حکومت قائم کی تاہم اسرائیل اور امریکی دباؤ کے تحت فتح نے اس حکومت کو قبول نہیں کیا اس طرح 2007ء میں اختلاف طول پکڑتا گیا اور حماس نے فتحاوی اہلکاروں کو غزہ سے نکال دیا تھا۔ جس کے بعد سے تاحال دونوں تنظیموں میں ہونے والے مصالحتی مذاکرات ناکامی ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ فتحاوی حکومت مفاہمت کی خواہش کے دعووں کے باوجود مغربی کنارے میں اسرائیلی خوشنودی کی خاطر حماس کے حامیوں کی پکڑ دھکڑ جاری رکھے ہوئے ہے جو اختلافات کے خاتمے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مبصرین کے مطابق فتح حکومت کی مفاہمت کے نعرے کو مسئلہ فلسطین کے متعلق اپنے جرائم کی پردہ پوشی کے لیے استعمال کر رہی ہے اور درپردہ اسرائیل کو فلسطینی مزاحمت سے بچانے کی خاطر کام کر رہی ہے۔ فروری کے آغاز میں الجزیرہ چینل کی جانب سے منکشف کی گئی دستاویز سے مبصرین کی اس رائے کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ان دستاویز کے مطابق فتح کی فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے خفیہ مذاکرات میں اسے القدس میں یہودی بستیاں باقی رکھنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ بیرون فلسطین موجود لگ بھگ 70 لاکھ فلسطینیوں کے حق واپسی سے بھی دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ ان دستاویز کے منظر عام پر آنے کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس، جن کی مدت صدارت جنوری 2009ء سے ختم ہو چکی ہے، کے زیر انتظام چلنے والی حکومت کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب عرب ممالک میں انقلابی تحریکوں نے سر ابھارا اور مصر میں فلسطینی اتھارٹی کی حامی اسرائیل نواز صدر حسنی مبارک کی حکومت بھی رخصت ہوگئی اور قومی غداری کی مرتکب فلسطینی اتھارٹی کے پاؤں بھی لرزنے لگے۔ لیبیا، تیونس اور مصر میں انقلابی تحریکوں کے بعد مغربی کنارے کے نوجوانوں نے بھی فلسطینی قومی مفاہمت کے خاطر تحریک شروع کردی ہے جس سے فلسطینی اتھارٹی سخت مشکلات کا شکار ہے۔