فلسطینی صحافی لمی خاطر کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں فتح کے زیر انتظام فلسطینی اتھارٹی کی ملیشیا نے الخلیل میں فلسطینی انقسام کے خاتمے کے حق میں خواتین کے جلوس پر حملے کی کوشش کی تھی۔ خاتون صحافی لمی خاطر، جو خود بھی مظاہروں میں شریک تھیں، کے مطابق پورے مغربی کنارے کی طرح فلسطینی مفاہمت کے حق میں نکالے گئے کامیاب جلوس پر ذرائع ابلاغ نے جلوس کی کوریج شروع کی تو عباس ملیشیا نے پہلے مظاہرین خاتون پر حملہ کرنے کی کوشش اور پھر کیمروں کے ذریعے ان کی تصاویر کھینچنا اور ان کے نام اور پتے لکھنا شروع کردیے، بعد ازاں ملیشیا کے اہلکاروں نے مظاہرین کے بینرز بھی پھاڑ ڈالے۔ صحافیہ نے بتایا نے عباس ملیشیا کی جانب سے خواتین کے ساتھ برتے گئے ناروا سلوک کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ملیشیا نے تمام مظاہرین کو بالجبر المنارہ اسکوائر سے پیچھے دھکیل کر ان کی نعرے بازی بھی بند تو کروا دی تاہم پیچھے ہٹتے ہی خواتین عباس حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی اور فلسطینی اختلافات اور گرفتاریاں ختم کرنے کے مطالبات شروع کر دیے۔ خاطر نے مزید بتایا کہ اس موقع پر فلسطینی مجلس قانون ساز کے اراکین اور حماس رہنماؤں کی جانب سے خواتین اور عباس ملیشیا کے مابین جھڑپیں ہوتے ہوتے رہ گئیں۔ فلسطینی صحافیہ نے اس موقع پر عباس ملیشیا کو پیغام ارسال کیا کہ خواتین جلد دوبارہ اسکوائر میں جمع ہو کر اپنی سرگرمیاں شروع کردیں گے، یہ تم سے نہیں ڈرتیں، عباس حکومت کے جیلوں سے اپنے مجاہدین کی رہائی ان کا بڑا ہدف ہے۔ خاطر نے بتایا کہ منگل کے روز پورے مغربی کنارے میں دور دور تک سناٹا ہونے کے باوجود مظاہرے میں شریک ہونے والی خواتین کی بڑی تعداد نے گھروں سے نکل کر فلسطینی مفاہمت کے حصول کی خاطر اپنی نیک نیتی ثابت کر دی۔ مغربی کنارے اور غزہ میں مختلف مقامات پر فلسطینیوں کی ریلیوں میں عباس ملیشیا کی جیلوں میں قید اسیران کے اہل خانہ نے بھی بھرپور شرکت کی۔ اس موقع پر قیدیوں کے اہل خانہ نے اپنے پیاروں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور عباس ملیشیا کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کر دی۔ اسیران اہل خانہ کمیٹی نے احتجاجی مظاہروں کے دن پیش کیے گئے فتحاوی رویے سے ثابت ہوگیا کہ فتح مفاہمت کے بارے میں سنجیدہ نہیں اور اس کی رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔