اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی جو لہر کی پیدا ہوئی ہے اس سے نہ صرف عرب ملکوں کے ڈکٹیٹروں کی نیندیں اڑ گئی ہیں بلکہ ان کے آقا امریکہ اور اسرائیل کو بھی سخت تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ اس لیے کہ اگر عرب ممالک میں عوام کی خواہشات کے مطابق جمہوری حکومتیں قائم ہو گئیں تو اسرائیل کا ناجائز وجود خطرے میں پڑ جائے گا
رہبر انقلاب اسلامی نے علاقے میں امریکہ اور ديگر تسلط پسند ملکوں کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج غیرقانونی صیہونی حکومت نے کینسر کے ایک پھوڑے کی طرح علاقے کو مسائل سے دوچار کر رکھا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ علاقے کے بعض ملکوں میں عوامی رد عمل سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں لمبی مدت تک ان کی تحقیر کا نتیجہ ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اس سلسلے میں سیاسی رہنماوں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور علماء دین کی ذمہ داری بڑی سنگين ہے۔
صیہونی حکومت ایک طرف تو فلسطینی سرزمین پر اپنے قبضے کو برقرار رکھتے ہوئے اسے مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئي ہے اور دوسری طرف وہ دنیا کو دھوکہ دینے کے لیے اپنا امن پسند چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی سلسلے میں صیہونی حکومت کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ایک پرفریب بیان میں کہا ہے کہ وہ عارضی سرحدوں کے ساتھ ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف نہیں ہیں کہ جس کی نہ اپنی فوج ہو نہ دفاع اور نہ ہی اپنی خارجہ پالیسی، لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔
صیہونی وزیراعظم کی اس تجویز کو فلسطینیوں نے سختی سے مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی تجویز پہلے بھی صیہونی حکومت پیش کر چکی ہے اور دوبارہ بھی یہ تجویز پیش کی گئی تو وہ اس کی بھرپور مخالفت کریں گے۔ ایسی کوئی بھی تجویز فلسطینیوں کے لیے قابل قبول نہیں ہے۔
صیہونی حکومت مختلف طریقوں سے ایک آزاد و خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے راستے میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ نیتن یاہو یہ تجویز پیش کر کے دراصل عملاً ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا امکان ختم کر دینا چاہتا ہے۔ اب فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کی سازشیں خطرناک اور پیچیدہ مرحلے میں داخل ہو گئي ہیں اور وہ ایک طرف تو فلسطینیوں کے کچلنے اور صیہونی بستیوں کو توسیع دینے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور دوسری طرف دنیا کو فریب دینے کے لیے وہ امن کے بھیس میں اپنے استعماری منصوبے پیش کر رہی ہے کہ جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہیں۔
صیہونی حکومت نے اب مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کا کام تیز کر دیا ہے اور گزشتہ پانچ ماہ کے دوران اس کام میں کافی تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور اس نے صیہونی کالونیوں میں ہزاروں رہائشی مکانات کی تعمیر مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ کئی دیگر منصوبوں پر کام شروع کر رکھا ہے اور صیہونی کالونیاں سرطانی غدود کی طرح مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں جگہ جگہ پھیل رہی ہیں اور صیہونی حکام ان کالونیوں کو ایک دوسرے سے متصل کر کے اور فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کر کے عملی طور پر فلسطینیوں کے رہنے کے لیے کوئی جگہ چھوڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر نے خاص طور پر گزشتہ دس برسوں کے دوران فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد کو بے گھر کیا ہے۔ فلسطینی علاقوں کے قلب میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر و توسیع نہ صرف ان علاقوں میں جغرافیائی ڈھانچے بلکہ آبادی کے تناسب کو بھی تبدیل کر رہی ہے۔
صیہونی حکومت قدس اور دریائے اردن کے مغربی کنارے کو صیہونی رنگ دینے کی کوشش کر رہی ہے اور وہ وہاں سے تمام اسلامی اور عرب آثار مٹانے کے درپے ہے۔ اس نے ان علاقوں کے تمام مقدس اور تاریخی مقامات کے نام تبدیل کر کے عبرانی زبان میں رکھ دیے ہیں اور وہ فلسطینیوں کے گھروں اور کھیتوں کو تباہ کر کے ان پر قبضہ کر رہی ہے۔
صیہونی حکومت کے ان تمام تر ناجائز اور جارحانہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے دنیا نے اس پر ردعمل ظاہر کیا اور کچھ عرصہ قبل اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک قرارداد پیش کر کے فلسطینی علاقوں میں صیہونی کالونیوں کی تعمیر کی مذمت کی، لیکن امریکہ نے غیرمنصفانہ ویٹو پاور کا استعمال کر کے اس قرارداد کو منظور نہیں ہونے دیا اور عملاً صیہونی کالونیوں کی تعمیر کا راستہ ہموار کر دیا۔ صیہونی حکومت کی ناجائز حمایت کی امریکہ کی پالیسی نے صیہونی حکومت کو اپنی غیرقانونی اور ناجائز پالیسیاں جاری رکھنے کے سلسلے میں گستاخ کر دیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ عرب ممالک میں اسلامی بیداری کی جو لہر کی پیدا ہوئی ہے اس سے نہ صرف عرب ملکوں کے ڈکٹیٹروں کی نیندیں اڑ گئی ہیں بلکہ ان کے آقا امریکہ اور اسرائیل کو بھی سخت تشویش لاحق ہو گئی ہے۔ اس لیے کہ اگر عرب ممالک میں عوام کی خواہشات کے مطابق جمہوری حکومتیں قائم ہو گئیں تو اسرائیل کا ناجائز وجود خطرے میں پڑ جائے گا۔ فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کر کے جو ایک ناجائز حکومت تشکیل دی گئی ہے وہ انہی پٹھو عرب حکمرانوں کی وجہ سے اب تک قائم ہے، اسی لئے رہبر انقلاب اسلامی نے انتباہ دیا کہ دنیا پر حاکم تسلط پسند نظام علاقے میں اپنے اڈے بچانے کی فکر میں ہے اور وہ اس ھدف کے لئے اپنی تمام تر طاقت استعمال کر رہا ہے، لہذا سیاسی رہنماوں، یونیورسٹی کے اساتذہ اور علماء دین کی ذمہ داری بڑی سنگين ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا ہے کہ علاقے کے عوام کو علماء و دانشوروں کی رہبری کی ضرورت ہے اور یہ رہبری اس وجہ سے ہونی چاہیے کہ سامراج عوام کی عظیم تحریکوں کو ہائي جیک نہ کر لے اور ان کے قیام کو بے اثر نہ بنا دے۔ آپ نے تاکید فرمائی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور عوام کی اعلٰی اھداف کی طرف رہنمائي کی جانی چاہیے۔ رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زیادہ مسلمان ہیں اور مسلمان قومیں دنیا کے حساس ترین اور سوق الجیشی لحاظ سے اہم علاقوں میں عظیم قدرتی ذخائر اور وسائل و ذرایع کے ساتھ بسی ہیں لیکن ان پر دوسرے حکومت کرتے ہیں اور ان کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔
تحریر:محمد علی